ڈیرہ اسماعیل خان (نمائندہ ڈیلی اردو ) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایک اکبر ایس بابر سے بھاگنے والا خود کو کھلاڑی کہتا ہے گزشتہ تقریر بازار میں کھڑے بازاری زبان کی عکاسی کرتی تھی، وزیراعظم کی زبان نہیں تھی اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس اجتماع میں تلاوت زکر تہجد نماز پنج گانہ ادا ہو رہی تھیں، سیرت النبی کانفرنس منعقد ہوئی اس اجتماع کو سرکس کا نام دیا ایسی سوچ پر لعنت ہو، ایسا شخص اور ایسی گری سوچ کے حامل کو کوئی غیرت مند اپنا حاکم تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسے اپنے مجرے، رقص و سرور تعفن پھیلاؤ دھرنے اور بدبو آج بھی اسکے ناک میں موجود ہے، اسکی سوچ اور انداز گفتگو سے اسی تعفن کی بوباہر نکلتی ہے۔ ہمارے آزادی مارچ نے مذہبی طبقہ کا روشن چہرہ پیش کیا اور سابق تاثر اور الزامات کو دھو ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی قربانی جدوجہد خصوصا کارکنوں کی مشقت رائیگاں نہیں جائے گی۔ جڑ کٹ چکی ہے سول عدالتوں نے پی ٹی وی پارلیمنٹ حملہ کیسز کے فیصلے سنانے ہیں۔ تعجب یہ کہ صدر اور وزیراعظم نے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے استثنا کی درخواست کی اور اب بری کردینے کی درخواست کرتے ہیں۔ کیس گذشتہ حکومت نے داخل کیا مگر آج سرکاری وکیل استغاثہ بھی ہے اور مدعی بھی خود سرکاری وکیل کا موقف ریاست سے غداری کے مترادف ہے، عدالت اسکا نوٹس لے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک جوش و جذبے سے آگے بڑھے گی۔ یہ فضل الرحمان کا شو نہیں تھا تمام اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تھا۔ نئے انتخابات کی سرحد کے قریب ہیں عوام کو انکے ووٹ کی عزت اور درست مقام ملے گا۔ استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہم آرام سے جارہے ہیں اور عوام کو تکلیف دینے کے طرز کے برعکس ہیں اسکے وجود سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی رٹ ختم ہے اسے تمام حکومتی محکموں اور اداروں نے قابض حکمران تسلیم کرلیا ہے اسکے اتحادیوں کو اسکا نوٹس لینا چاہیے کہ وہ کس ناجائز شخص کی حمایت کررہے ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے بلوچستان حکومت چیئر مین سینٹ ڈیرہ سے سیٹ چھوڑنے کی آفریں دی گئیں مگر ہمارا مقصد اقتدار نہیں۔ ہم جعلی اکثریت کا خاتمہ چاہتے ہیں قوم روزانہ اسکی بوگیاں سنتی رہی ہے اب عدالت نے بھی سن لی اور اسکا لب ولہجہ بوکھلاہٹ کی عکاسی کررہا ہے
ایک اور سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں کسی سرکاری ملازم کی مدت وغیرہ کے ایشوز میں نہیں پڑتا میں اداروں کو سیاست سے الگ رکھنے کا حامی ہوں ۔ہم اداروں سے گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ انکے رویہ خود انکے اداروں کے لیئے سود مند نہیں یہ ہمارے ادارے ہیں مگر تصادم نہیں چاہتے تھے اور ہم کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ کسی شخص کی بے گناہی کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ عمران خان اسکو کرپٹ کہے ۔ یہ اور اسکی پوری جماعت خود کرپشن کی دلدل میں کھڑی ہے۔
Load/Hide Comments