سپریم کورٹ: فوج کے حراستی مراکز میں 1000 قیدی ہیں، اٹارنی جنرل

اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ میں فاٹا اور پاٹا ایکٹ سے متعلق اپیل پر سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا اور پاٹا ایکٹ سے متعلق اپیل پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حراستی مراکز کیوں قائم کیے گئے، عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں؟ زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟۔ ملک دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے۔ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا یہ وہی ویڈیو ہے جو 2015ء میں بھی عدالت کو دکھائی گئی تھی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 21ویں ترمیم کے بعد اس کے متعلقہ کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ کے اکیسویں ترمیم جلدبازی میں منظور کی گئی۔ فاٹا پاٹا میں دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز موجود رہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’حراستی مراکز میں کتنے لوگ زیر حراست ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے کچھ توقف کے بعد بتایا کہ ’حراستی مراکز میں ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں۔ کئی افراد آباد کاری اور ذہنی بحالی کے بعد رہا ہو چکے ہیں جب کہ کئی افراد کو جرم ثابت نہ ہونے پر رہا بھی کیا گیا ہے۔‘

جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ حراستی مراکز بھی موجود تھے۔ استفسار کیا کہ کیا 2008ء سے آج تک حراستی مراکز کی قانونی حیثیت چیلنج ہوئی؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز کی قانونی حیثیت سے متعلق یہ پہلا کیس ہے۔ حراستی مراکز سمیت دیگر نقاط پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے۔ تین سے چار ماہ میں نیا قانون بن کر نافذ ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پچیسویں ترمیم میں پہلے سے رائج قوانین کو تحفظ دینا ضروری تھا۔ حراستی مراکز میں کسی کو تین ماہ  تک رکھا جا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس طرح تو کسی کو بھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیرمعینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا۔ نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نقطہ نکال دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صوبائی اسمبلی قانون بنا کر وفاقی قانون کو ختم کر سکتی ہے؟  عدالت نے آئین کے مطابق چلنا ہے۔ اگر 2011ء کا قانون موجود ہے تو بات صرف حراست کا جائزہ لینے کی رہ جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 2011ء کے قانون میں سقم حراست کا ریویو نہ ہونا ہے۔ آپ نے ہمیں کوئی ویڈیو دکھانی تھی۔ ویڈیو کس حوالے سے ہے؟ اکیسویں ترمیم کے مقدمات میں سانحہ اے پی ایس کی ویڈیو دکھائی گئی تھی۔

بعدازاں عدالت نے سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں