پرویز مشرف غداری کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ خصوصی عدالت نے کل بروز جمعرات سنانا تھا تاہم وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کا فیصلہ روکنے سے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جسے منظور کر لیا گیا ہے۔

گزشتہ روز دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ پرویز مشرف اس کیس میں مفرور اور اشتہاری ہیں لیکن شفاف ٹرائل کا حق ہر ملزم کو حاصل ہے۔

عدالت نے سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کو تمام متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سلمان صفدر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ہدایت کی کہ آپ ابھی پیچھے کرسی پر بیٹھ جائیں ہم پہلے وزارت داخلہ کو سنیں گے۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ پہلے آپ یہ بتائیں متعلقہ قانون کون سے ہیں؟جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے دلائل دینے کا آغاز کردیا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کا کیا آفیشل نوٹیفیکشن موجود ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انہیں آگاہ کیا کہ جی یہ نوٹیفکیشن موجود ہے۔

سماعت کے ابتدا میں سیکریٹری قانون و انصاف کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو خصوصی عدالتوں کی تشکیل اور نوٹیفکیشن کے بارے میں بتانے کی ہدایت کی اور استفسار کیا کہ جو قانون آپ نے پڑھا ہے کیا وہ نوٹفکیشن واپس بھی لے سکتے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کی تقرری ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے نکتہ اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ آئین کی 18ویں ترمیم میں اکتوبر 1999 کے اقدامات کو بھی معطل کر دیا گیا تھا کیا آپ نے وہ دیکھے ہیں؟ اور آپ نے اٹھارویں ترمیم کے بعد نئی درخواست دائر کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اس کیس میں وفاقی حکومت درخواست گزار ہے اس وجہ سے عدالت پر کافی بوجھ ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019 کو تشکیل ہوئی لیکن وزارت قانون کے نمائندے فائل لے کر باہر چلے گئے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس کو ہدایت کی کہ آپ اپنی ہی پیٹیشن کے صفحہ 5 کے پیرا گراف نمبر 16 کو دوبارہ پڑھیں کیوں کہ آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں تو آپ کہتے ہیں فائل باہر چلی گئی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگلا ہفتہ رکھ لیتے ہیں آپ تیاری بھی کر لیں گے آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی اور اب آپ دلائل سے بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کو اتنے سالوں کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں، اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں، وزارت داخلہ کو اتنے سال بعد پتہ چلا غداری کیس کی درخواست ٹھیک نہیں تھی۔

جسٹس محسن کیانی نے مزید کہا کہ جائیں جا کر بیان دیں ہم مشرف کے خلاف درخواست واپس لے رہے ہیں، عدالت میں کیوں آئے ہیں، اگر آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟ کیا آپ نے کیبنٹ سے اجازت لے کر درخواست دی ہے؟

جس پر چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ جس ٹریبونل میں مشرف کا کیس چل رہا ہے ’آپ اسی ٹربیونل میں جا کر چیلنج کیوں نہیں کر رہے‘؟ آپ ہائیکورٹ میں کیوں آئے ہیں؟ شکایت کنندہ خود کہہ رہا ہے کہ میری شکایت غلط تھی، کیا آپ پرویز مشرف کا دوبارہ ٹرائل کرانا چاہتے ہیں؟

سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کیا آپ آج یہ کیس وفاقی کابینہ کی اجازت سے یہاں لے کر آئے ہیں؟ اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹریبونل کو جا کر بتائیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ یوں کہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے، کیا آج وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی؟

جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ اب ہم نے کیا کرنا ہے؟ آپ ہم سے کیا آرڈر چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ غداری کیس چلانے کی درخواست بھی غلط تھی اور ٹرائل کا فورم بھی۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا کہ ہماری استدعا ہے کہ خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ کرے، کیوں کہ ابھی پراسیکیوشن کو سنا نہیں گیا

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے پروسیکیوشن کا نوٹیفیکشن جاری کرنا تھا سابق وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا اور آپ نے واپس لے لیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت سے پوچھا کہ ہمیں صاف بتا دیں حکومت چاہتی کیا ہے؟ غلطی آپ کی ہے، درست بھی آپ نے کرنی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک شخص ہمیں آکر کہہ رہا ہے میں نے غلطی کی ہے آپ اس کو غلطی ڈیکلئیر کریں، یہ ہم سب کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ کیس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک شخص نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اُس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے، پیچیدگی یہ ہے کہ ہم نے اس سب کے باوجود اس کے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پروسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے کوئی نئی تقرری نہیں کی، ایک سال سے پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی۔

جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس کا تو یہی مطلب ہے کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانا ہی نہیں چاہتے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 4 دسمبر کو پروسیکوشن ٹیم کے سربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا تھا اور 30 جولائی 2018 کو پروسیکوشن کے سربراہ نے استعفی دے دیا تھا بعدازاں ٹیم کو 23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیس کی سماعت کب تھی جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ ایک سال سے آپ نے ہیڈ آف پروسیکوشن کو کیوں نہیں تعینات کیا، ہیڈ آف پراسیکوشن کو کس نے تعینات کرنا تھا، جوڈیشری یا ایگزیکٹو نے؟ جواباً سرکاری وکیل نے کہا کہ ایگزیکٹو نے کرنا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایسی حکومت کے وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی کوئی ضرورت ہے؟ لاء منسٹری جو نوٹیفیکشن جاری کرتی ہے وہ غلط ہوتا ہے، اور سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ لامنسٹری کا یہ حال ہے اور ہمیں آ کے یہ بتا رہی ہے کہ جو کیا سب کچھ غلط کیا۔

سماعت میں جسٹس عامر فاروق نے ہدایت کی کہ میڈیم طاہرہ صفدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی پوسٹ کا نوٹیفکیشن دکھائیں۔

بعدازاں طلب کیے جانے پر سیکریٹری قانون عدالت میں پیش ہوئے جو جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا یہ رویہ ہے کہ کیس ساڑے 12 بجے ہے اور آپ ڈیڑھ بجے آتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق تو خصوصی عدالت کی تشکیل درست ہے پھر وزارت داخلہ نے درخواست میں کیوں لکھا کہ عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ حتمی دلائل دینے والی پروسیکیوشن ٹیم قانونی نہیں تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی اس بات پر کہا کہ آپ نے غلطی کی آپ ہی ٹھیک کریں گے تو ہم کیا کریں؟ آپ نے خصوصی عدالت کو یہ ساری باتیں بتائی ہی نہیں اور اب جب فیصلہ آنے والا ہے تو آپ یہاں آ گئے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پروسیکیوشن ٹیم کے ڈی نوٹی فائی ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں دیے گئے دلائل غیر قانونی تھے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے ہی پراسیکیوشن ٹیم نوٹی فائی کرنی تھی، آپ غلطی کرنے والے ہیں، آپ نے ہی غلطی سدھارنی ہے۔

عدالت کے سوال پر سیکریٹری قانون نے بتایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ سے منظوری کے بعد ہوئی۔

جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ اگر خصوصی عدالت قانون کےمطابق بنی تو پھر آپ نے درخواست میں کیوں غلط لکھا؟کیا وزارت قانون یا اٹارنی جنرل نے کہیں ایڈوائس کیا کہ یہ شکایت غلط تھی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ خصوصی عدالت نے پروسیکیوشن ٹیم کے تقرر کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔

سماعت میں توفیق آصف ایڈووکیٹ نے بولنے کی کوشش کی تو عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ تمام غیر متعلقہ لوگ بیٹھ جائیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میں غیر متعلقہ نہیں ہوں۔

توصیف آصف ایڈوکیٹ نے عدالت میں عرض گزار کی کہ میں سپریم کورٹ میں غداری کیس میں پٹیشنر تھا اور کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ کو تو آئین سے اصل انحراف کی شکایت داخل کرانی چاہیے تھی، 3 نومبر کی ایمرجنسی تو ججز کے خلاف تھی، ہمیں آپ نے مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

بعدازاں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو ڈائس پر بلالیا جنہوں نے بتایا کہ یہ درخواست میں نے اپنے نام سے دائر کی تھی پرویز مشرف کی طرف سے نہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو کہا کہ آپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نے پرویز مشرف کی طرف سے درخواست نہیں دی کیوں کہ جب کوئی ملزم اشتہاری ہو جائے تو اس کی طرف سے کوئی وکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ملزم پرویز مشرف کے لیے وکیل مقرر کیا جو عمرے پر گئے تو انہیں بھی نہیں سنا گیا، اگر اشتہاری کو کوئی دوسرا وکیل دیا جا رہا ہے تو مجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ میں نے 9 اکتوبر 2018 کو وکالت نامہ داخل کیا، اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ آپ عدالتی مفرور سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیجئے، وہ تو وہ وکالت نامے پر بھی دستخط نہیں کر سکتا۔

جسٹس عامر فاروق نے ان سے دریافت کیا کہ کیا خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی آپشن دی تھی؟

جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ جی عدالت نے آپشن دی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا، پرویز مشرف بیمار اور اس پوزیشن میں نہیں کہ سکائپ پر بیان ریکارڈ کرا سکیں، جب ملزم کی مرضی کے وکیل کو نہیں سنا جا رہا تو فیئر ٹرائل تو وہیں پر کمپرومائز ہو گیا۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا ہے؟ جس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراوسیکیوشن کا کام ہے کہ ملزم کے حق میں بھی کوئی مواد ہو تو سامنے لائے، ورنہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے خدشہ ظاہر کیا کہ پروسیکوشن ہماری تھی کہیں ساری صورتحال کا فائدہ مشرف کو نہ مل جائے کیوں کہ اگر تکنیکی مسائل کی وجہ سے فائدہ ملزم کو مل گیا تو کل جگ ہنسائی ہو گی۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے دائر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے آج ہی سنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کو وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 19 نومبر کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا ہے۔

تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے باز رکھنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کی گزشتہ روز ہونے والی پہلی سماعت پر عدالت نے متعلقہ ریکارڈ اور سیکریٹری قانون کو طلب کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں