مقبوضہ بیت المقدس (ڈیلی اردو) 06 دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق چھ دسمبر دو ہزار سترہ کے بعد بیت المقدس سے اسرائیلی فوج نے تلاشی کے دوران 3750 فلسطینی گرفتار کیے گئے۔
فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر کی طرف سے میڈیا کو جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو سال کے دوران حراست میں لیے جانے والوں میں 1070 بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی عمریں 18 سال سے کم ہیں جب کہ 171 فلسطینی خواتین، مسجد اقصیٰ کی محافظ، شیر خوار بچوں کی مائیں، زخمی اور کم عمر لڑکیاں شامل ہیں۔
اسیران اسٹڈی سینٹر کے ترجمان ریاض الاشقر نے بتایا کہ ٹرمپ کے اعلان القدس کے بعد فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کی طرف سے کریک ڈاؤن اور گھر گھر تلاشی کےان کی گرفتاریوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو سال کے دوران مسجد اقصیٰ کے باب رحمت میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سرکردہ فلسطینی دینی شخصیات، علماء، سماجی کارکن۔ صحافی شامل ہیں۔ حراست میں لیے جانے والوں میں القدس اوقاف کونسل کے چیئرمین الشیخ عبدالعظیم سلھب اور ان کے نائب الشیخ ناجح بکیرات شامل ہیں۔
القدس میں سب سے زیادہ گرفتاریاں العیسویہ سے کی گئیں جہاں سے 1400 فلسطینی گرفتار کیے گئے۔ اس کے بعد شعفاط کے علاقے سے 498، سلوان سے 501 پرانے بیت المقدس سے 429 اور مسجد اقصیٰ سے 344 فلسطینی حراست میں لیے گئے۔گذشتہ دو سال کے دوران القدس سے 18سال سے کم عمر کے 1070 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے 74 کی عمریں 12 سال یا اس سے کم عمر ہیں۔