بھارت: متنازع شہریت بل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں احتجاج، 200 سے زائد طلبہ زخمی

نئی دہلی (ڈیلی اردو) بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں بل کے خلاف احتجاج کرنے طلبہ پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 200 سے زائد طلبہ و طالبات زخمی ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیرمسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔ متنازع بل پر مسلسل تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ گزشتہ روز دوپہر میں افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا۔

دوسری جانب طلباء نے موقف اپنایا ہے کہ پولیس کی جانب سے ان پر شیلنگ کی گئی اور ڈنڈے برسائے گئے جس کے بعد پر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا۔

دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے متعدد طلبہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کی لائبریری میں آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کیپس کے تمام دروازوں کو سیل کرنے سے قبل مظاہرین پر تشدد بھی کیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی واقعے سے متعلق سماجی رابطوں کی سائٹ پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائل کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند ہوگئے۔

ادھر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

واقعے کے بارے میں اسپتال کے ترجمان فادر جیورج کا کہنا تھا کہ ہولی فیملی اسپتال سمیت قریبی اسپتالوں میں متعدد زخمی طلبہ کو لایا گیا، جہاں 26 طلبہ کو طبی امداد دی گئی۔

دہلی انتظامیہ نے نے جنوب مشرقی دہلی میں پیر کو تمام اسکول بن رکھنے کا اعلان دیا جبکہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی پہلے ہی ہفتے کو کہہ چکی تھی کہ وہ موسم سرما کی تعطیلات کیلئےقبل از وقت بند رہے گی، اس کے علاوہ اترپردیش کی شمالی ریاست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ اتوار کو پولیس کے ساتھ طلبہ کے تصادم کے بعد وہ تعطیلات کا اعلان جلد کررہے تھے۔

یاد رہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں بھارتی شہریت کے حوالے سے متنازع بل منظور کیا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پڑوسی ممالک سے غیرقانونی طور پر بھارت آنے والے افراد کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اس ترمیمی بل کے بعد بھارت میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے اب تک 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی معطلی اور کرفیو بدستور نافذ ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں اور مظاہرین کا ماننا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد ریاست آسام میں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں