لاہور (ڈیلی اردو) صوبے پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں جمعے کو معمولی جھگڑے کے مشتعل ہجوم نے سکھوں کے مذہبی مقام گرودوارہ ننکانہ صاحب کا تقریباً چار گھنٹے سے زائد وقت تک محاصرہ کیے رکھا۔
مشتعل افراد نے ننکانہ صاحب گرودوارے پر پتھراؤ کیا اور نعرہ بازی کی۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شدت پسند نوجوان کہہ رہا ہے کہ ننکانہ صاحب کا نام تبدیل کرکے غلام مصطفیٰ ٹاون رکھ دیا جائے گا۔ اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک سکھ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
اس وقت سکھوں کے مقدس مقام گوردوارا جنم استھان ننکانہ صاحب پر سرکاری مسلمانوں نے حملہ کردیا ہے، گوردوارے جنم استھان کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے ،
ایک شخص کا کہنا ہے کہ ہم اس شہر میں ایک بھی سکھ نہیں چھوڑیں گے ، اس ننکانہ صاحب کا نام بدل کر غلامِ مصطفی رکھیں گے pic.twitter.com/kLDdkYZROx— Dr. Wasim Raza Naqvi (@wasimrazanaqvi) January 3, 2020
بی بی سی کے مطانق یہ محاصرے اس وقت شروع ہوا جب دودھ دہی کی ایک دکان پر ہونے والے ایک جھگڑے نے طول پکڑا اور اسے علاقے میں ایک پرانے واقعے کے ساتھ ملانے کی کوشش میں مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
#AttackonNankanaSahib#shamfulattack
Gurdwara #JanamAsthan #nankanasahib under Attack.#sikhsinNankanaSahib being threatened- see video @ImranKhanPTI take notice@UsmanAKBuzdar take action ASAP pic.twitter.com/2cW192IpX3#ProtectMinorties pic.twitter.com/KLaA7F2jkJ— Pawan Singh Arora ✪ (@PawanSinghArora) January 3, 2020
یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست میں ننکانہ صاحب کے ایک سکھ خاندان نے چھ افراد پر ان کی جواں سال لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے بعد ایک مسلمان لڑکے سے شادی کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔
#NankanaSahib, the birth place of Shri Guru Nanik Dev ji, is under attack by angry Muslim mob. They are demanding to change the name of town to Ghulam.e.Mustafa.#Minorities, be you are a #Hindu, #Christian or #Sikh can never claim we are safe and secure here in #Pakistan. pic.twitter.com/m9JeNCqy1W
— Kapil Dev کپل دیو (@KDSindhi) January 3, 2020
تاہم پولیس نے موقف اپنایا تھا کہ لڑکی نے لاہور کی ایک عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے قانونِ شہادت کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ ’اس نے بغیر کسی دباؤ کے، اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے کے بعد محمد احسان نامی لڑکے سے شادی کی ہے۔‘
چیئرمین پنجابی سکھ سنگت گوپال سنگھ چاولہ جو اس گرودوارہ کے اندر موجود تھے نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ مشتعل ہجوم جس میں زیادہ تر کم عمر افراد شامل تھے، نے گرودوارہ کے گیٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔
The situation at Gurdwara Janamasthan #NankanaSahib is still tense – police is trying to control the situation – number of people have surrounded Gurdwara building. pic.twitter.com/vmpMGSH8vf
— Shiraz Hassan (@ShirazHassan) January 3, 2020
گوپال سنگھ کے مطابق اس وقت گرودوارہ کے اندر تقریباً 20 افراد موجود تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
تاہم پاکستان کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے جو خود اس حلقے سے ہیں بی بی سی کے نامہ نگار کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک ذاتی جھگڑے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ویڈیو میں جو شخص نعرے لگواتے دکھائی دے رہا ہے وہ مذہبی رحجان رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مٹھی بھر لوگ احتجاج کر رہے تھے جبکہ وہاں بڑی تعداد تماشہ بینوں کی بھی موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس معاملے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
جبکہ گوپال چاولہ نے بتایا کہ ضلع ننکانہ صاحب کی پولیس نے ان میں سے دو افراد کو گرفتار کر لیا جس کے بعد مبینہ طور پر لڑکی کو اغوا کرنے والے محمد احسان کے خاندان کے افراد نے پہلے شہر کے ایک چوک (چونگی نمبر 5) پر احتجاج کیا اور بعد میں گرودوارہ کا رخ کر لیا۔
تاہم گرودوارہ ننکانہ صاحب کے اندر موجود افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس نے گرفتار افراد کو رہا کر دیا جس کے بعد احتجاج کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
گوپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’آج سے گرودوارہ ننکانہ صاحب میں گرو گوبند سنگھ کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز ہو رہا تھا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ نے سکھ برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مکمل تعاون کیا ہے، اسے مذہبی مسئلے کے طور پر پیش کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک خاندان کا پولیس گرفتاریوں کے خلاف ردعمل تھا۔ البتہ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ گرودوارہ کے گیٹ کو نقصان پہنچانے والے افراد پر توہین مذہب کا مقدمہ قائم کیا جائے۔‘
پنجاب حکومت کا موقف
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ دیر قبل ان کی علاقہ ڈی سی راجہ منصور سے بات ہوئی ہے اور ان کے مطابق اب وہاں حالات اور معاملات قابو میں ہیں۔
انھوں نے بھی یہ ہی بتایا کہ یہ معاملہ ایک انفرادی جھگڑے سے شروع ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ’محمد احسان نامی مسلمان لڑکا جس نے مبینہ طور پر سکھ لڑکی کو اغوا کیا تھا، کے چچا کی دودھ دہی کی دکان ہے جس پر اس کا بھائی بھی کام کرتا ہے۔ اس دکان پر ایک شہری کی طرف سے دہی میں مکھی کی شکایت کی گئی جس کے بعد جھگڑا ہوا اور پولیس کو اطلاع کر دی گئی جس نے موقع پر پہنچ کر چچا اور بھتیجے کو گرفتار کر لیا۔ جس کے بعد ان دونوں نے اس کو مذہبی رنگ دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب لڑکے کے والد نے انتظامیہ سے معافی مانگی ہے۔‘
فیاض الحسن چوہان کے مطابق انڈیا اور انڈین میڈیا اس معاملے کو غلط رنگ دے کر متنازعہ شہریت بل اور کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا ننکانہ صاحب میں گردوارہ پر ہجوم حملے کی مذمت
** حکومت فوری طور پر ننکانہ صاحب میں امن بحال کرے: بلاول بھٹو
** ننکانہ میں سکھ کمیونٹی کا تحفظ قومی ذمیواری ہے: بلاول بھٹو زرداری
** پیپلز پارٹی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے: بلاول بھٹ— PPP (@MediaCellPPP) January 3, 2020
بلاول بھٹو کا ننکانہ صاحب پر حملے کی مذمت
چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ننکانہ صاحب میں گردوارہ پر ہجوم حملے کی مذمت کی انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر ننکانہ صاحب میں امن بحال کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ننکانہ میں سکھ کمیونٹی کا تحفظ قومی ذمہ واری ہے اور پیپلز پارٹی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس واقعے کی اطلاع کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان میں موجود انڈیا کے ہائی کمیشن نے ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے ننکانہ صاحب گرودوارے کے باہر مظاہرے کی شدید مذمت کی۔
Appeal to @ImranKhanPTI to immediately intervene to ensure that the devotees stranded in Gurdwara Nankana Sahib are rescued and the historic Gurdwara is saved from the angry mob surrounding it.https://t.co/Cpmfn1T8ss
— Capt.Amarinder Singh (@capt_amarinder) January 3, 2020
جبکہ انڈیا کے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے اور گرودوارہ ننکانہ صاحب میں پھنسے سکھ یاتریوں کو مشتعل ہجوم سے تحفظ کی اپیل کی۔
مقدمے کا پس منظر
ننکانہ صاحب کے سٹی تھانے میں ستمبر 28 ستمبر تاریخ کو منموہن سنگھ نامی شخص کی درخواست پر چھ افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا۔ منموہن سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ ان افراد نے ان کے گھر میں گھس کر اسلحے کی نوک پر ان کی بہن جگجیت کور کو اغوا کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منموہن سنگھ نے بتایا تھا کہ لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ ’اس کی عمر 16 یا 17 سال ہو گی۔ اس کا ابھی شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا۔‘
اس سے قبل گذشتہ برس لڑکی اور لڑکے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں لڑکی کو اسلام قبول کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس میں وہ ویڈیو میں نظر نہ آنے والے ایک تیسرے شخص کو بتا رہی تھیں کہ ان کا نیا نام عائشہ رکھا گیا ہے۔
منموہن سنگھ کا مؤقف تھا کہ ’جگجیت کور کو اسلام جبراً قبول کروایا گیا ہے۔ اگر آپ ویڈیو میں دیکھیں تو اس میں بھی وہ سہمی ہوئی نظر آ رہی ہے۔‘
جگجیت کور کے خاندان نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ان کو بازیاب کروائے اور واپس گھر بھیجے، مگر منموہن سنگھ کے مطابق ننکانہ پولیس ان کو ٹالتی رہی۔