ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا: وزیراعظم عمران خان

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا، ہم مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں۔ہماری پوری کوشش ہے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ یہ خطہ ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہماری دعا ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں، ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کو انٹرنیشنل میڈیا توجہ دے رہا ہے لیکن کشمیر کا المیہ اس سے بہت ہی بڑا ہے اور اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے۔

جرمن ٹی وی ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں سیاست میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ پاکستان کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ جب میں بڑا ہو رہا تھا تو پاکستانی معیشت ایشیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی تھی اور یہی بات 1960 کے عشرے میں ترقی کے لیے ایک ماڈل ثابت ہوئی تھی۔ پھر ہم راستے سے بھٹک گئے۔ میرا سیاست میں آنے کا مقصد پاکستان کی انہی صلاحیتوں کا دوبارہ حصول تھا۔ یہ درست ہے کہ ہم مشکل ہمسائیگی والے ماحول میں رہتے ہیں اور ہمیں اپنے اقدامات کو متوازن رکھنا ہی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب پاکستان کے عظیم ترین دوستوں میں سے ایک ہے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے۔ پھر ایران ہے، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے، جو ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پھر ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان بھی ہے۔

پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے، ایک ایسا ملک جس نے گزشتہ 40 برسوں میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ طالبان، امریکا اور افغان حکومت مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں۔ بھارت میں بی جے پی حکومت کے ساتھ کشیدگی اور کشمیر کی صورتحال بارے سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں وہ پہلا لیڈر تھا جس نے دنیا کو اس بارے میں خبردار کیا تھا کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔ بھارت پر ایک ایسی خاص انتہا پسندانہ نظریاتی سوچ غالب آ چکی ہے، جو ہندتوا کہلاتی ہے۔ یہ آر ایس ایس (راشٹریہ سوایم سویک سنگھ) کی نظریاتی سوچ ہے۔ آر ایس ایس ایک تنظیم کے طور پر 1925 میں قائم کی گئی تھی، جرمن نازیوں سے متاثر ہو کر اور اس کے بانی نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ اسی طرح جیسے نازی آئیڈیالوجی کی بنیاد اقلیتوں سے نفرت پر رکھی گئی تھی، آر ایس ایس کی بنیاد بھی مسلمانوں اور مسیحیوں سمیت دیگر اقلیتوں سے نفرت ہی ہے۔ یہ بھارت کے لیے ایک المیہ ہے اور اس کے ہمسایوں کے لیے بھی کہ اس ملک پر آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے، وہی آر ایس ایس جس نے عظیم مہاتما گاندھی کو قتل کروایا تھا۔ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ایک ایسا ملک ہے جسے انتہا پسند چلا رہے ہیں۔

کشمیر گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل محاصرے کی حالت میں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں وزیر اعظم بنا تو میں نے بھارتی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مکالمت کی کوشش کی۔ میں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم اپنے باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے دو قدم آگے بڑھیں گے۔ لیکن جلد ہی میں نے یہ دیکھ لیا کہ بھارت نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے اس پر کوئی بہت اچھا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ بات اس وقت بھی پوری طرح ظاہر ہو گئی تھی جب بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے ریاستی علاقے میں ضم کر لیا حالانکہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے مطابق بھی یہ خطہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے۔

آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بارے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم دنیا کے کسی بھی حصے سے کسی کو بھی پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ آئیے، پہلے اس طرف کے کشمیر کا دورہ کیجیے اور پھر بھارت کے زیر انتظام حصے کا۔ خود ہی فیصلہ کر لیجیے۔ انہو ں نے کہاکہ آزاد کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں اور اس حصے کے عوام ہی وہاں کی حکومت منتخب کرتے ہیں۔ کسی بھی دوسری انتظامیہ کی طرح، ان کی بھی مشکلات ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہماری طرف سے دنیا بھر سے مبصرین کو بلا لیجیے، مجھے یقین ہے کہ یہ مبصرین کشمیر کے پاکستانی حصے میں جا سکتے ہیں مگر انہیں کشمیر کے بھارتی حصے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کے لوگوں کو ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی بھی ریفرنڈم یا استصواب رائے کے لیے تیار ہے۔ یہ فیصلہ کشمیریوں کو خود کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادی۔انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی طرف عالمی برادری زیادہ توجہ نہیں دیتی ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں کو میڈیا کتنی توجہ دے رہا ہے، کشمیر کا المیہ تو اس سے بہت ہی بڑا ہے، بدقسمتی سے مغربی ممالک کے لیے ان کے تجارتی مفادات زیادہ اہم ہیں، بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آٹھ ملین کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ بھارت میں مجموعی طور پر اقلیتوں کے ساتھ بھی، اس پر بین الاقوامی برادری کے رویے میں قدرے سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بھارت کا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) واضح طور پر اقلیتوں کے خلاف ہے، خاص طور پر بھارت کے 200 ملین مسلمانوں کے خلاف، ان تمام امور پر دنیا کے خاموش رہنے کی وجہ زیادہ تر تجارتی مفادات ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹریٹیجک حوالے سے بھارت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ چین کی موازن قوت بنے، تو اس لیے بھی ان دونوں تنازعات کے بارے میں عالمی رویے بالکل مختلف ہیں۔

جرمنی اور یورپی یونین کے کردار کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ میری رائے میں جرمنی بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ جرمنی یورپ کا مضبوط ترین ملک ہے اور یورپی یونین کا بہت بڑا رکن ملک بھی، جب میں نے چانسلر میرکل سے بات کی تھی تو میں نے انہیں ان امور کی وضاحت کی تھی، یہ کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے دراصل اس بارے میں ایک بیان بھی دیا تھا جب وہ بھارت کے دورے پر تھیں۔

افغانستان کی موجودہ مزاکرات کی صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایک فائر بندی کی طرف پیش رفت جاری ہے، صدر اشرف غنی کے دوبارہ انتخاب کے بعد افغانستان میں نئی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے، ہم امید کر رہے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔

افغانستان میں قیام امن سے وسطی ایشیا میں تجارت کے نئے امکانات پیدا ہوں گے تب افغانستان ہمارے لیے بھی ایک اقتصادی راہداری بن جائے گا۔ جب افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا تو اس کا فائدہ ہمارے اس صوبے خیبر پختونخوا کے عوام کو بھی پہنچے گا جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ان امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ طالبان نے کچھ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا اور پاکستان کی مدد سے دو مغربی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گئی۔ اس لیے ہمارا جتنا بھی اثر و رسوخ ہے ہم اپنی پوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے کہاکہ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جو کہا جاتا ہے کہ چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین ہمیشہ ہی ہمارا بہت قریبی دوست رہا ہے۔ چین نے ان انتہائی مشکل حالات میں بھی ہماری بہت مدد کی جب میری حکومت کو گزشتہ حکومت سے ورثے میں ایک پورا اقتصادی بحران ملا تھا۔ اس لیے ہم چین کے ساتھ مختلف امور پر نجی سطح پر تو بات کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر نہیں کیونکہ یہ حساس معاملات ہیں۔

پرنس ہیری اور ان کی اہلیہ میگن مارکل کے برٹش رائل فیملی میں اپنے شاہی کردار سے دستبرداری کے فیصلہ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مجھے پاکستان میں اتنے زیادہ مسائل پر توجہ دینا ہوتی ہے کہ مجھے یہ کوئی بہت بڑا موضوع لگا ہی نہیں، دیکھا جائے تو یہ ان کی اپنی زندگی ہے، اگر وہ اپنی زندگی اس طرح گزارنا چاہتے ہیں تو کسی کو بھی اس میں کوئی مداخلت بھلا کیوں کرنا چاہیے؟ اگر کوئی نوجوان جوڑا اس طرح اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں