سعادت حسن منٹو کی آج 65ویں برسی منائی جارہی ہے

لاہور (ڈیلی اردو) اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی 65 ویں برسی منائی گئی، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

اردو زبان میں مختصر کہانیوں اور جدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔کشمیری النسل خوبرو فیشن ایبل صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمر میں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اور ڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصور کیے جاتے تھے۔

منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاوں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناونی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناونا ہے کہ میری کہانیاں اسی پردہ پوش معاشرے کی عکاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثر مِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں۔

ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد سیاہ حاشیے لاوڈ اسپیکر ٹھنڈا گوشت کھول دو گنجے فرشتے شکاری عورتیں نمرود کی خدائی کالی شلوار اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخرکار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں