غیر قانون آباد کاریوں پر اسرائیل کا قبضہ، پورا فلسطین اسرائیل کے حوالے کردیا

مقبوضہ بیت المقدس (ڈیلی اردو) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے حوالے سے اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا، منصوبے کے تحت مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل قبضہ تسلیم کرنے اور شہر کے ایک حصے میں فلسطینی دارالحکومت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ غیر قانون آباد کاریوں پر اسرائیل کا قبضہ اور چار سال کے لیے مزید کالونیوں کی تعمیر روکنے کی تجویز بھی پلان کا حصہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن کے نام پر پورا فلسطین اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکی صدر نے میڈل ایسٹ پیس پلان کے نام اپنا منصوبہ پیش کیا تو ان کے پہلو میں اسرائیلی وزیر اعظم اور سامنے صرف صیہونی سامعین بیٹھے تھے۔

ٹرمپ کے مطابق امن منصوبے کے تحت مقبوضہ بیت المقدس بلاشرکت غیرے اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مقدس شہر کا ایک چھوٹا سا حصہ فلسطینی ریاست کا کیپٹل ہوگا لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ وہ چھوٹا سا حصہ کہاں ہوگا، بدلے میں امریکی صدر چاہتے ہیں کہ فلسطینی اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم کریں۔

اسرائیلی آباد کاریاں چار سال کے لیے معطل رہیں گی۔ لیکن جو غیر قانونی کالونیاں بن چکی ہیں وہ اسرائیل کا ہی حصہ ہونگے، ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ منصوبے سے فلسطینی سرزمین د گنی ہو گی لیکن اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے ایسا ہوگا کیسے؟

پلان کے تحت غزہ کی پٹی میں محصور مہاجروں کی اپنی سرزمین پر واپسی کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لئے بند ہوگا۔

وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ صدر ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کی تفصیلات سے بھی قبل فلسطینی مسترد کرچکے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ منصوبہ ہر حال میں اسرائیل کے مفاد میں پیش کیا جائے گا جبکہ نیتن یاہو نے اسے تاریخ سازی کا ایک موقع قرار دیا ہے جس کے تحت اسرائیلی سرحدوں کا حتمی تعین کیا جاسکے گا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’امن منصوبہ دونوں فریقین کے لیے مفید ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے لیے ایک مضبوط راہ دکھاتا ہے، منصوبے کے تحت فلسطین دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا‘۔

صدر ٹرمپ نے بتایا کہ گزشتہ 70 برس میں اس ضمن میں بہت کم پیش رفت ہوسکی، فلسطینیوں کے پاس تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنی آزاد ریاست حاصل کرسکیں گے اور اسرائیل کے خطرات بھی کم ہوں گے۔

یروشلم اسرائیلی دارالحکومت رہے گا

اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا جبکہ نتن یاہو نے اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں رہنے والے اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کا خطاب بھی دیا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کریں۔

غزہ میں احتجاج

غزہ کی پٹی میں ہزاروں افراد نے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں کا رخ کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ اور نتن یاہو کی تصاویر کو آگ لگائی اور بینروں کے ذریعے یہ پیغام پہنچایا کہ ’فلسطین برائے فروخت‘ نہیں۔

اس اعلان کے بعد الفتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی صدر محمود عباس سے شدید اختلافات رکھنے والی تنظیم حماس نے بھی صدر کے بیان کی تائید کی ۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ وہ تمام فلسطینی فریقین سے وسیع تر گفتگو کے منصوبے کی تائید بھی کرتے ہیں۔

یہ فلسطینی مزاحمت کے خاتمے کا منصوبہ ہے، وزیر اعظم محمد اشتیہ

فلسطینی وزیرِ اعظم محمد اشتیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی مزاحمت اور مقصد کے خاتمے کا ایک منصوبہ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ اس حل کو قبول کرنے سے مقبوضہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ مغربی کنارے اور دس سال سے محصور غزہ کی بطور آزاد ریاست کی امیدیں دم توڑ جائیں گی، فلسطینی رہنماؤں کو واشنگٹن میں مذاکرات کے لیے نہیں بلایا گیا اور ان کے بغیر کوئی منصوبہ کارآمد نہیں ہوگا۔

دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی اور حماس نے امریکی منصوبے کو مسترد کر دیا، حماس نے مشرقی بیت المقدس اسرائیل کے حوالے کرنے کے بیان کو اشتعال انگیز اور ٹرمپ کے منصوبے کو فضول قرار دیا۔

ایران نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو یکطرفہ اور اسرائیل نواز کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔

دریں اثنا دوسری جانب عرب لیگ نے اس مسئلے پر ہفتے کو ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں