امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس کے 3 ملزمان بری، مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت ختم

کراچی (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا/بی بی سی) سندھ کی عدالت نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید کی سزا میں بدلنے کا حکم دیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو امریکی صحافی کے مقدمۂ قتل میں ملزمان کی اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

یاد رہے کہ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا ریجن کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کررہے تھے اور اسی سال مئی میں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔

چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جب کہ استغاثہ کی جانب سے بھی مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی اور اس طرح اس کیس کا فیصلہ آنے میں 18 سال کا عرصہ لگا۔

جمعرات کو عدالت نے تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل کے الزام سے بری کرتے ہوئے سات سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

تاہم ملزم احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان پہلے ہی 18 سال سے جیل میں ہیں۔

ادھر ملزمان کے وکیل بیرسٹر خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ پولیس مجرموں کے خلاف ٹرائل میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکی جب کہ کیس میں کوئی پرائیویٹ گواہ بھی پیش نہیں کیا گیا اور تمام گواہ پولیس اہلکار تھے۔

ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چھ مارچ کو اس مقدمے میں حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ڈینئل پرل کراچی میں کیا کر رہے تھے؟

امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ سے منسلک ڈینئل پرل کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی صحافی افضل ندیم ڈوگر کا کہنا ہے کہ ڈینئل کراچی میں تشدد کی لہر اور انتہا پسندی پر مختلف اسٹوریز کر رہے تھے۔

ان کے بقول ڈینئل کئی امریکیوں کو مسلمان کر کے اُنہیں بالواسطہ طور پر القاعدہ میں شامل کرانے والی مذہبی شخصیت مبارک علی شاہ گیلانی کا انٹرویو بھی کرنا چاہتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ان کی ڈینئل سے آخری ملاقات ان کے اغوا سے ایک روز قبل 22 جنوری 2002 کو ہوئی تھی۔

افضل ندیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد اسٹوریز پر ڈینئل کے ساتھ مل کر کام مکمل کر لیا تھا لیکن 22 جنوری کو ڈینئل نے انہیں بتایا کہ وہ بعض ذاتی ملاقاتوں کے لیے جانا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول ان ملاقاتوں کے بارے میں ڈینئل پرل نے اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا تھا کہ وہ کون لوگ تھے جن سے ملاقات کرنے انہوں نے جانا تھا۔

منصوبے کے مطابق افضل ندیم کو 23 جنوری کی شام واپسی پر پرل سے کراچی کے میٹروپول ہوٹل کے باہر ملنا تھا۔ تاہم افضل ندیم کے مطابق ان سے پرل کا دوبارہ رابطہ نہ ہوسکا اور وہ اسی دن لاپتا ہو گئے اور ان کا فون بھی بند ہو گیا تھا۔

کراچی میں ہی مقیم ڈینئل پرل کی اہلیہ میرین پرل نے بھی افضل ندیم سے رابطہ کر کے شوہر سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ افضل ندیم کے بقول میرین کو خود بھی اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں کہ آخر ان کے شوہر کس سے ملاقات کرنے گئے تھے۔

اگلے دن افضل ندیم ڈوگر کو پولیس حکام اور امریکی سفارتِ خانے میں تعینات بعض افسران نے ڈینئل پرل کی رہائش گاہ پر بلایا اور ان سے بعض معلومات حاصل کیں لیکن پھر اُنہیں تفتیش یا کیس میں گواہ نہیں بنایا گیا۔

احمد عمر شیخ کون ہے؟

1973 میں لندن میں ایک متمول اور مذہبی رجحان رکھنے والے پاکستانی خاندان میں پیدا ہونے والے عمر سعید شیخ کے بارے میں سابق پاکستانی فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سنہ 2006 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ‘ان دی لائن آف فائر’ میں لکھا کہ ’عمر شیخ کو لندن اسکول آف اکنامکس میں دوران تعلیم ہی برطانوی انٹیلی جنس ادارے ایم آئی سکس نے بھرتی کر لیا تھا۔ ان کے ذریعے بوسنیا میں سرب جارحیت کے خلاف لندن میں مظاہرے منعقد کروائے گئے حتیٰ کہ برطانوی انٹیلی جنس نے اسے کوسوو میں جہاد کے لیے بھی بھیجا’۔

ان معلومات کی کبھی باضابطہ تردید نہیں کی گئی اور خود عمر شیخ نے بھی یہ اعتراف کیا تھا وہ سنہ 1992 میں زمانہ طالب علمی میں بوسنیا گئے تھے اور وہاں مسلمانوں کے خلاف سربوں کے ظلم اور اس پر عالمی طاقتوں کی ‘بے حسی’ نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔

بوسنیا سے جہاد میں حصہ لینے کا تصور لیے عمر شیخ افغانستان پہنچے جہاں انھوں نے ’جنگی تربیت‘ حاصل کی لیکن مبصرین کے مطابق اس ‘جنگی’ تربیت کے استعمال کی انھیں شاید کبھی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ انھوں نے اپنی مغربی تعلیم اور تربیت کو استعمال کرتے ہوئے مغرب سے تعلق رکھنے والوں کو اغوا کر کے اپنے مقاصد پورا کرنے کا پروگرام بنایا۔

1994 میں عمر شیخ نے انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں تین برطانوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کیا اور ان کے رہائی کے بدلے دس کشمیری رہنماؤں کی جیل سے رہائی کا مطالبہ کیا تاہم یہ منصوبہ ناکام ہوا، وہ پولیس مقابلے میں زخمی ہوئے اور انڈین حکام کی قید میں چلے گئے۔

اس قید سے اسے رہائی دسمبر 1999 میں اس وقت ملی جب ایک انڈین مسافر طیارہ کھٹمنڈو سے دلی جاتے ہوئے اغوا ہو کر قندھار لے جایا گیا۔ طیارے کے مسافروں کے بدلے تین افراد کی رہائی عمل میں آئی جن میں کشمیری جیلوں میں بند مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور عمر شیخ شامل تھے۔

پھر امریکی خفیہ ادارے سی آئی نے دعویٰ کیا کہ امریکہ پر نائن الیون کے حملوں میں شامل ایک شخص محمد عطا کو پاکستان سے ایک بڑی رقم عمر شیخ نے امریکہ بھیجی تھی۔ ابھی یہ انکشاف اخبارات کی زینت نہیں بنا تھا کہ پاکستان میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کا اغوا ہو گیا۔

تفتیش کے دوران اس معاملے میں عمر سعید شیخ کا نام سامنے آیا اور پھر کراچی پولیس نے عمر شیخ کو لاہور میں تلاش کر لیا۔ ایک افسر کی ان سے فون پر بات بھی ہوئی اور انھیں ڈینیئل پرل کو رہا کرنے کے بدلے رعایت دینے کی پیشکی کی گئی لیکن پھر وہ تفتیش کاروں کے ریڈار سے غائب ہو گئے۔

دس روز تک تلاش جاری رہی جس کے بعد عمر شیخ نے خود گرفتاری دے دی لیکن اس وقت تک ڈینیئل پرل کو قتل کیا جا چکا تھا۔

گرفتار ہونے کے بعد عمر شیخ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد اور گرفتاری سے پہلے کے دو ہفتے انھوں نے لاہور میں اس وقت کے ایک سینیئر بیوروکریٹ اور آج پاکستان کے وزیرِ داخلہ بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجازشاہ کے پاس گزارے تھے۔

ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں شامل افراد پر مقدمہ امریکہ میں چلانے کا فیصلہ ہوا لیکن پاکستانی حکومت نے عمر شیخ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پھر پاکستان میں اس مقدمے میں سنہ 2002 میں عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی جس پر اپیل کا فیصلہ 18 برس بعد دو اپریل 2020 کو ہوا ہے اور عدالت نے ان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے اسے اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا سے بدل دیا۔

کیس کے نتائج:

کیس کے دوران ملزمان کو کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔

اس عرصے کے دوران احمد عمر شیخ کی بیرک سے ایک بار بعض غیر ملکی موبائل فون سمز بھی برآمد ہوئی تھیں جن کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملا تھا کہ وہ کیسے اس تک پہنچیں۔

کچھ عرصے بعد احمد عمر شیخ حیدرآباد جیل کی مسجد کے پیش امام بھی بن گئے تھے۔ اسی طرح فہد نسیم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ گرفتاری کے وقت طالبِ علم تھے اور بی کام کر رہے تھے جب کہ عادل شیخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پولیس میں ملازمت پیشہ تھے۔

صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سرکاری وکلا کے لیے یہ کیس ثابت کرنا واقعی مشکل کام تھا۔ لیکن کیس کا فیصلہ آنے سے یہ سوال 18 سال بعد دوبارہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ڈینئل کے قاتل یہ لوگ نہیں تھے تو پھر ڈینئل کا قتل کس نے کیا تھا؟

افضل ندیم ڈوگر کے مطابق کیس میں کوئی جان تھی اور نہ ہی کوئی شواہد۔ اُن کے خیال میں جس طرح اس کیس کی تفتیش کی گئی اس سے بدترین کیس کوئی اور ہو نہیں سکتا۔

ان کے بقول دلچسپ امر یہ ہے کہ جس شخص کی نشاندہی پر ڈینئل پرل کی لاش برآمد کی گئی تھی اسے کیس میں شاملِ تفتیش ہی نہیں کیا گیا۔

افضل ندیم کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب واقع جس فارم ہاؤس میں مبینہ طور پر ڈینئل پرل کو قتل کیا گیا تھا، اس کے مالک سعود میمن کافی عرصہ جیل میں رہے اور پھر بیماری کے باعث انتقال کر گئے۔

بی بی سی کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے تین سالہ پرل پروجیکٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان چاروں مجرموں نے صحافی کے اغوا میں ضرور مدد کی تھی تاہم قتل انھوں نے نہیں کیا تھا۔

امریکی صحافیوں کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے مطابق قتل کی ویڈیو بھی دو مرتبہ بنائی گئی تھی۔ پہلی میں صحافی کی گردن کٹ چکی تھی لیکن کیمرا مین نے انھیں قتل کرنے والے خالد شیخ محمد سے کہا کہ وہ دوبارہ اسے ریکارڈ کروائیں اور دوسری مرتبہ خالد نے ڈینئل پرل کا سر تن سے جدا کیا۔

کراچی پولیس نے 2019 میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں شاہد شیخ نامی شخص کو بھی ہلاک کیا تھا جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ڈینیئل پرل کے قتل میں بھی ملوث تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں