ڈیرہ غازی خان میں امام مسجد کی 13 سالہ بچے سے زیادتی، ملزم گرفتار

اسلام آباد (ش ح ط) صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے نواحی علاقے حامی غازی عربی میں امام مسجد نے 13 سالہ بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

تھانہ دراہمہ پولیس نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ ڈیرہ غازیخان کے علاقے حامی غازی عربی کے قریب گگو چوک کے امام مسجد قاری حنیف کھوسہ نے مدرسہ اکبریہ حنیفیہ تجوید القرآن میں 13 سالہ بچے حسیب ولد محمد سلیم کو حجرہ میں لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 13 سالہ بچے کو میڈیکل چیک اپ کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر (ٹی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

تھانہ دراہمہ کے ایس ایچ او ایوب چھجڑا نے بتایا ہے کہ امام مسجد قاری حنیف کھوسہ کو ہم نے موقع پر گرفتار کر لیا ہے۔ ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کا انکشاف ہوا ہے اور ملزم کے خلاف عبدالحمید بھٹی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے

پولیس حکام نے بتایا کہ امام مسجد کچھ عرصہ سے ڈی جی خان کے نواحی مسجد میں خطیب کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ قاری حنیف نے بچے سے زیادتی کے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔

خیال رہے کہ مذہبی مقامات پر بچوں کے ساتھ زیادتی کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔

قبل ازیں خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے قاری شمس الدین نے مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن میں ایک دس سالہ بچے کو سو مرتبہ سے زائد زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

چائلڈ رائٹس موومنٹ کے نیشنل کوارڈینیٹر ممتاز گوہر نے بتایا یہ مساجد میں ایسے واقعات پہلے بھی پیش آ رہے تھے اب بھی آ رہے ہیں لیکن اب لوگ کسی حد تک یہ واقعات تو رپورٹ کر دیتے ہیں لیکن اب اخبارات ایسی خبروں کو کم کوریج دیتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 2019 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 1300 سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جبکہ 2018 کے پہلے چھ ماہ میں یہ تعداد 2300 سے زیادہ تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ تقریباً 85 اخبارات کی مانیٹرنگ کرتے ہیں اور ان میں بیشتر اخبارات کے صفحات کم ہوئے ہیں اور اشتہارات بڑھ گئے ہیں جس وجہ سے اس طرح کی خبروں میں صرف وہ خبریں چھپتی ہیں جن میں یا قتل ہو یا کوئی تشدد ہو یا کچھ ایسی انہونی بات ہو تو اخبارات میں رپورٹ ہو جاتی ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 3800 واقعات پیش آئے تھے۔

ممتاز گوہر کے مطابق پاکستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوتے اور وہ لوگ پھر خود بدلہ لیتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ انھیں کہیں سے انصاف نہیں مل سکے گا۔

قصور میں زینب کے واقعہ کے بعد قانون سازی میں بہتری لائی گئی لیکن ماہرین کے مطابق عملی طور پر اب تک زیادہ اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں