مقبوضہ کشمیر میں خاتون صحافی مسرت زہرا کیخلاف غداری کا مقدمہ درج

سرینگر (ڈیلی اردو) مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کی مظلوم کشمیریوں کی آواز دبانے کی ایک اور کوشش سامنے آگئی۔ تصویروں سے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی ترجمانی کرنے والی فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کیخلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فوٹو جرنلسٹ پر سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کردیا گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسرت زہرا کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں باضابطہ اپنے خلاف مقدمے کے اندراج سے آگاہ نہیں کیا، سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا علم ہوا ہے۔

بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ مسرت زہرہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے نوجوانوں کو بھڑکا رہی ہیں اور بدامنی کو فروغ دے رہی ہیں۔

مسرت زہرا کو یو اے پی اے ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ ادھر خواتین کی صحافتی تنظیموں نے مسرت زہرا کے خلاف مقدمے کی مذمت کی ہے۔

خیال رہے کہ متنازع قانون یو اے پی اے حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دے اور نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کو اس طرح کے کیسز کی تفتیش کی اجازت دیتا ہے۔

اس قانون کے ذمرے میں آنے والے فرد کو زیادہ سے زیادہ 7 سال یا اس سے کم سزا ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ مسرت زہرا نے تین دن پہلے سوشل میڈیا پر مقبوضہ کشمیر کی خاتون عارفہ جان کی تصویر شیئر کی تھی، جن کے شوہر کو بھارتی قابض فوج نے 2000ء میں شہید کردیا تھا۔

مسرت زہرا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ان چند خواتین صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ جن کا شمار علاقے کی پہلی تین فوٹو جرنلسٹس میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے صرف چند برس پہلے اس پیشے کو اختیار کیا اور اس قلیل عرصے کے دوران ایک فری لانس فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے نام کمایا ہے۔ ان کے کام کو بھارت سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی کافی سراہا گیا ہے۔

کشمیر پریس کلب اور صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اسے پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف جارحیت قرار دیا ہے جبکہ مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اتوار کو پولیس نے بھارتی روزنامے ‘دی ہندو’ کے نامہ نگار پیرزادہ عاشق کو کئی گھنٹے حراست میں رکھا۔ اس کے دوران پیرزادہ عاشق سے ان کی چھپی دو خبروں کے بارے میں تفتیش کی گئی تھی اور انہیں مبینہ طور پر ہراساں بھی کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے بھی کشمیری صحافیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اگرچہ کشمیری صحافیوں اور اخبارات کو 1989 سے ہی غیر اعلانیہ سنسر شپ، سرکاری اشتہارات کی بندش، قید و بند، تذلیل، مار پیٹ، قاتلانہ حملوں اور ساتھیوں کے قتل جیسے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔

مقامی نوجوانوں نے 1989 میں بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا جب کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں نے شورش کو دبانے کے لیے ایک سخت گیر مہم شروع کی تھی۔

بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر کے صحافی ایک انتہائی دشوار اور پُر آزمائش صورتِ حال سے دوچار ہیں اور صحافیوں کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں