طالبان نے ماہِ رمضان میں جنگ بندی کا افغان حکومتی مطالبہ مسترد کردیا

کابل (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا) طالبان نے افغانستان حکومت کی طرف سے ماہِ رمضان کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں یہ مطالبہ کیا تھا۔

افغان حکومت کا طالبان کو کہنا تھا کہ جنگ بندی کی صورت میں حکومت کورونا وائرس کی وبا سے بہتر طور پر نمٹ سکے گی۔

افغان طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ امریکہ سے طے پانے والے معاہدے میں قیامِ امن کے لیے ایک فریم ورک طے کیا گیا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل و بین الاقوامی برداری بھی اس کی تائید کر چکی ہے۔

سہیل شاہین کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اگر معاہدے پر پوری طرح عمل ہو تو یہ ہمیں ایک پائیدار امن اور جنگ بندی کی طرف لے جائے گا۔

یاد رہے کہ رواں برس 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔

اس معاہدے کی رو سے 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات سے قبل حکومت کو طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا جواب میں طالبان کی جانب سے بھی ایک ہزار افغان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔

تاہم قیدیوں کے تبادلے کا عمل ست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات بھی تاخیر کا شکار ہیں۔

طالبان کا مسلسل یہ اصرار ہے کہ وہ تمام قیدیوں کی رہائی سے پہلے ان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔

افغانستان کے مذہبی امور کے وزیر عبدالحیم منیب نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے حکومت کورونا وائرس کے مشترکہ خطرے سے بہتر طور پر نمٹ سکے گی۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی وجہ سے ہزاروں قیدیوں کی جانوں کو خطرہ ہے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا نا تو معقول ہے اور ناہی اس کی کوئی منطق ہے۔

افغان حکومت نے اب تک ملک کے 18 صوبوں سے 550 طالبان قیدیوں کر رہا کیا ہے۔

افغانستان کی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق رہائی پانے والے قیدیوں میں سے 58 کو جمعرات کو رہا کیا گیا جب کہ طالبان اب تک افغان حکومت کے 60 قیدی رہا کر چکے ہیں۔

افغان سلامتی کونسل کے ترجمان کے مطابق افغانستان میں 11 مارچ کے صدارتی فرمان کے تحت امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں اور کرونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے ملک بھر کی جیلوں سے مجموعی طور پر 1500 طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری رہے گا۔

دوسری جانب طالبان کا مؤقف ہے کہ جب تک تمام قیدیوں کو رہا نہیں کر دیا جاتا، اس وقت تک وہ بین الافغان مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ افغان حکومت اس سے قبل متعدد بار جنگ بندی کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن طالبان نے صرف ایک بار 2018 میں عیدالفطر کے موقع پر تین روز کی جنگ بندی قبول کی تھی۔

اگرچہ امریکہ، طالبان معاہدے کے بعد طالبان نے امریکی فورسز کے خلاف حملے روک دیے ہیں لیکن افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف اُن کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان جنگ بندی پر اسی وقت آمادہ ہوں گے جب یہ ان کے اپنے مفاد میں ہوگا۔

افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ طالبان افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف قیدیوں کی رہائی اور دیگر معاملات پر جاری اختلافات دور ہونے تک حملے روک دیں۔

دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد افغان حکومت، اقوامِ متحدہ اور بین الاقومی برداری طالبان پر جنگ بندی کے لیے زور دے رہی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے بدھ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ہونے والے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ طالبان جنگ بندی کا مطالبہ مان لیں گے۔

اشرف غنی نے متنبہ بھی کیا تھا کہ اگر طالبان نے کورونا وائرس کی وبا کے خطرے کا تدارک نہیں کیا تو اس کا نتیجہ انسانی المیے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

طالبان کی طرف سے یہ کہا جا چکا ہے کہ اگر اُن کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں کورونا وائرس کی وبا سے کوئی متاثر ہوا تو وہ اس علاقے میں اپنی عسکری کارروائیاں عارضی طور پر روک دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں