سپریم کورٹ: کورونا وائرس کے روک تھام کے اقدامات میں بد عنوانی ہو رہی ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پیش کی جانے والی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ کسی چیز میں شفافیت نہیں۔ اربوں روپے کا سامان خریدا جا رہا ہے۔ آڈٹ ہوگا تو اصل بات سامنے آئے گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبے ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بنائیں ورنہ عبوری حکم جاری کریں گے۔

بینچ میں شامل جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے۔ ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا ذاتی عناد ہے۔ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل، صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل، وزارت صحت اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ماسک اور دستانوں کے لیے کتنے پیسے چاہیئں۔ اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ماسک ملتا ہے۔ پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ سارے کام کاغذوں میں ہی ہو رہے ہیں۔ جتنی سرکاری رپورٹس آئی ہیں۔ ان میں کچھ بھی نہیں۔ یہ ادارے کر کیا رہے ہیں۔ کسی چیز میں شفافیت نہیں۔ کرونا وائرس کے اخراجات کا آڈٹ ہو گا تو اصل بات سامنے آئے گی۔

چیف جسٹس نے اسلام آباد کے قریب حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر سے متعلق استفسار کیا۔ جس پرسیکریٹری صحت نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ کا دورہ کیا تو وہ غیر فعال تھا۔ بیڈ اور پانی اگرچہ موجود تھا لیکن بجلی دستیاب نہیں تھی۔ ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر 4 افراد کو رکھا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل میں قرنطینہ سینٹر منتقل کیا۔ گرلز ہاسٹل میں 48 کمرے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کے اس سوال پر کہ یہ کس نے قرنطینہ سینٹر بنایا ہے؟ ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کا حال بھی حاجی کیمپ جیسا ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ 150 کارخانوں کو کام کی اجازت دیں گے۔ سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت دی جائے گی۔ لاکھوں دکانیں ہیں ہر کوئی کام کے لیے الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک دکان کھلوانے والے کو نہ جانے کتنے پیسے دینا پڑتے ہوں گے۔ اجازت دینے والوں سے لے کر پولیس والے تک سب کو ہی کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے حکام سے کہا کہ جامع پالیسی بنا کر تمام کارخانوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے۔ ایک صوبائی وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دیں گے یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے۔ پتہ نہیں دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ نے صوبائی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ مارا جا رہا ہے۔ حکومت نے مارکیٹس بند کرکے مساجد کھول دیں۔ کیا مساجد سے کرونا وائرس نہیں پھیلے گا۔ 90 فی صد مساجد میں ریگولیشنز پر عمل نہیں ہو رہا۔ اگر فاصلہ رکھنا ہے تو ہر جگہ رکھنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے۔ صوبائی حکومتوں نے کاروباری مصروفیات روک دیں۔ صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں۔ وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول چار کو دیکھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ درآمدات، برآمدات، لمیٹڈ کمپنیز، ہائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں؟ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں۔ اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔

دوران سماعت سیکریٹری صحت نے بتایا کہ ملک میں روزانہ ایک ہزار کرونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح 10 فی صد ہے۔

پنجاب حکومت کے اقدامات سے متعلق رپورٹ پر جسٹس قاضی امین نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ پنجاب سے متعلق جو کاغذ آپ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے۔

جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ میں خود پنجاب کا ہوں۔ مجھے علم ہے وہاں صورت حال کیسی ہے۔ پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ الارمنگ ہے۔ صوبے میں کرونا وائرس کی مریضوں کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مسافر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سفر کرنے کے لیے مال بردار ٹرک میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ سفری پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے جہاز کے ٹکٹ کے برابر کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں۔ کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکٹیو ناکام ہوگئے۔ کسی کو احساس نہیں کہ حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے۔ ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ذاتی عناد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے۔ اس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ صوبوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہونا چاہیے۔ ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں یکساں پالیسی بنائی جائے۔ یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے پر کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ کرونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے۔ ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے۔ وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کے لیے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔ وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنی پڑے۔ کرونا وائرس اس وقت اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ کرونا سے متعلقہ سہولیات کی کوئی کمی نہیں۔ نو مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے۔ چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا۔ ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل کی باتوں پر کہنا تھا کہ ہم کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے لیکن جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں۔ وہ بھی دیکھیں۔ سفید پوش افراد راشن کے لیے لائن میں نہیں لگتے۔ صدر مملکت اور وزیر اعظم کے ارادے نیک ہوں گے لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا۔

عدالت نے قومی رابطہ کمیٹی کے 14 اپریل کے فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں صرف ایس او پیز بنائے گئے پالیسی نہیں تھی۔ توقع رکھتے ہیں کہ اس معاملے پر جامع پالیسی بنائی جائے گی اور اس پر عمل در آمد بھی ہو گا۔ کیس کی مزید سماعت 18 مئی کو ہوگی۔

عدالت نے وفاقی معاملات پر صوبائی حکومتوں کی مداخلت پر وفاق اور صوبوں سے دلائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔

عدالت نے زکواۃ اور بیت المال فنڈز میں کرپشن پر وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب مانگ لیا ہے اور کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر فیصلہ کریں گے کرپشن کیس نیب کو دینا ہے یا ایف آئی اے کو۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران حکومتی کارکردگی پر پٹیشن کو ازخود نوٹس میں بدل دیا تھا۔ اور اس بارے میں حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔

عدالت نے کرونا کے حوالے سے مختلف حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جب کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان اس وقت جاری چپقلش پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں