ضلع کرم: پاراچنار میں متعدد شیعہ گاؤں پر طالبان کا بڑا حملہ

پاراچنار (احمد طوری) طالبان نے قبائلی ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹرز پاراچنار سے 15 کلو میٹر دور علاقے کنج علیزئی سمیت دیگر علاقوں پر بڑا حملہ کیا ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان بھاری ہتھیاروں سے شیعہ کے تین گاؤں کنج علیزئی، نستی کوٹ اور گمبیل گاؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مقبل قبائیل کہا کہنا ہے ہمیں پتہ نہیں جنگ کس نے شروع کی ہے۔ جبکہ افغانستان کی جانب سے طالبان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔

اطلاعات کے مطابق داعش اور طالبان نے کنج علیزئی (نستی کوٹ) پر بڑا حملہ کیا ہے اور بھاری ہتھیاروں سے گاؤں کنج علیزئی، گمبیل اور نستی کوٹ گاؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لوئر کرم سے بھی طالبان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا تھا کہ صاف ظاہر ہے گزشتہ روز جنگ روکنا ایک بہانہ تھا جو مقبل قبائیل نے کل سوشل میڈیا پر ویڈیو شئیر کی تھی، کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور آج بڑا حملہ کیا ہے۔ ایک قبائلی عمائدین نے کہا کہ دوست احباب ہوشیار رہیں، “سب” ملے ہوئے ہیں۔

مقبل قبائل طوری قبائیل نے بطور مزار وین یہاں آباد کئے تھے اور اب مالک بننے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ چار سال سے پہاڑ اور اراضی ہڑپنے کے کیلئے حملے کررہے ہیں۔ حکومت طوری قبائیل کے خلاف سازشوں سے باز رہیں۔ قبائلی عمائدین نے بتایا کہ طوری قبائیل کے زمینوں پر منظم طریقے سے حملے ہورہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے “ہمسایوں” کے ساتھ مل کر زمینوں کے مالک طوری قبائیل کے خلاف سازشیں کررہیں، کنج علیزئی اور مقبل کا مسئلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بالشخیل کے شاملاتی اراضی کو متنازعہ بنا کر قبضہ کرنے کی کوش کی گئی اور اب کنج علیزئی کے پہاڑ پر مقبل قبائیل حملہ اور ہوئے ہیں۔

قبائیل میں جنگ اکیلے نہیں لڑا جاتا اور قبائیل مل کر دشمن کے ساتھ نمٹا جاتا ہے، اس سے پہلے کہ معاملہ کسی اور طرف جائے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوش کے ناخن لیں، اور زمین حقدار تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس حملے سے پہلے مقبل اور کنج علیزئی کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی اور عید کے بعد بات چیت ہونا طے تھے۔

طوری قبائیل ساڑھے تین سو سال سے وادی کرم میں موجود ہیں، جو قبائیل ہم نے اپنی زمینوں اور پہاڑوں کی حفاظت کیلئے رکھے تھے بیشتر آج ان زمینوں اور پہاڑوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

مقبل قبائل کے ساتھ کاغذات مال کا کوئی ریکارڈ نہیں اور کاغذات مال کے مطابق فیصلہ نہیں مان رہے بلکہ پاک فوج کے ایک افسر کے ذریعے زور زبردستی پہاڑ اور اراضی پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جبکہ طوری قبائیل نے کاغذات مال اور سارا سیٹلمنٹ ریکارڈ حکام کے حوالے کیا ہے لیکن حکام مسئلہ حل کرنے کی بجائے مزید الجھانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے صورتحال جنگ کی طرف بڑھی ہے۔

جب ۱۸۹۲ میں انگریز نے طوری قبائیل کی درخواست پر آکر وادی کرم کا انتظام سنبھالا تو ۱۹۰۳ اور ۱۹۴۳ میں باقاعدہ بندوبست کے ذریعے زمینوں اور پہاڑوں کی تقسیم رجسٹرڈ ہوئی اور نقشے بنائے گئے۔سابق کرم ایجنسی اور موجودہ ضلع کرم کے بڑے قبائیل مثلاً غنڈیخیل، دوپرزئی، علیزئی، حمزہ خیل اور مستوخیل نے آپس میں تقسیم کئے۔اب طوری قبائیل کی آپس میں تقسیم اور انگریز کے بندوبست دونوں موجود ہیں۔ اگر کوئی یہ کوشش کررہا ہے کہ طوری قبائیل کی زمین کسی اور کے حوالے کریں تو یہ ان کی بھول ہے۔

طوری قبائیل نے ساڑھے تین سو سال وادی کرم کی ہر انچ کی حفاظت کی ہے لہذا جنگوں سے کوئی خوف ہے اور نہ فرار، اپنے علاقے کے ہر انچ کی حفاظت کیلئے لڑیں گے۔

ان زمینوں پر جنگیں بھی ساڑھے تین سو سال سے ہوتی رہی ہیں اگر کوئی علاقے کی بہتری چاہتے ہیں تو طوری قبائیل کے زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے کا سوچ اپنے دماغ سے نکالیں، اور کاغذات مال اور سیٹلمنٹ ریکارڈ کے تحت مسائل کے فیصلے کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں