کابل (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا) افغان حکومت نے مزید 900 طالبان قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عید کے موقعے پر عسکریت پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کے تیسرے اور آخری روز یہ اعلان سامنے آیا۔
24 مئی سے طالبان نے فائر بندی کا اعلان کیا تھا اور افغان حکام کے مطابق اس پر مجموعی طور سے عمل کیا گیا۔
طالبان نے جب جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تو اس وقت حکومت نے دو ہزار طالبان قیدی رہا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے آج چھبیس مئی کو کہا کہ حکومت نے نو سو قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بالکل صحیح تعداد قانونی عمل مکمل ہونے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔ پچیس مئی کو حکام نے ایک سو قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ ان قیدیوں کو بگرام کے جیل خانے سے رہا کیا گیا تھا۔
د افغانستان اسلامي جمهوري دولت به د سولي تلاښونو د بریا، د اوربند د دوام او د مهامخ خبرو د چټک پیل لپاره نن نژدې ۹۰۰ طالب زندانیان ازاد کړي.
— Javid Faisal (@Javidfaisal) May 26, 2020
جاوید فیصل نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا تھا کہ انہیں امن کی کوششوں کو بڑھاوا دینے کے سلسلے میں خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا گیا ہے، تاکہ جنگ بندی میں اضافہ ہو سکے اور براہ راست مذاکرات فوری طور پر شروع ہو سکیں۔
د افغانستان اسلامي جمهوري دولت د ښه نیت له مخې او د سولې پروسې د پرمختګ، په خاصه توګه د اوربند د دوام او د مخامخ خبرو د ژر پیل لپاره نن په پروان کي سل تنه طالب زندانیان خوشې کړل. pic.twitter.com/7VVbRFDQdA
— NSC Afghanistan (@NSCAfghan) May 25, 2020
طالبان کے قطر کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں 900 قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی۔
The release of 900 prisoners by the other side is a good progress. The Islamic Emirate will release a remarkable number of prisoners soon, inshaAllah.
— Suhail Shaheen. محمد سهیل شاهین (@suhailshaheen1) May 26, 2020
فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں امریکہ کے زیر قیادت اتحادی افواج کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور طالبان کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اسی معاہدے میں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان کی طرف سے ایک ہزار افغان سرکاری اہل کاروں کی رہائی بھی شامل تھی۔
صدر غنی نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاکہ دو عشروں پر محیط اس جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس عارضی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ آزاد کیے گئے جنگجو دوبارہ بر سر پیکار نہیں ہوں گے۔
افغانستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ رہا شدہ طالبان جنگی جرائم میں دوبارہ ملوث ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے جنگ بندی کو ایک ایسا موقع قرار دیا جس کے ذریعے امن عمل کو شروع کیا جا سکتا ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکانات اس خبر سے بھی روشن ہوئے کہ سترہ مئی کو افغان صدر غنی اور ان کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کا سمجھوتا طے پا گیا ہے۔ کئی ماہ سے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر دونوں بڑے لیڈروں کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا اور اسی کی وجہ سے یہ امن مذاکرات بھی التوا کا شکار تھے۔
اس وقت افغانستان میں تقریباً بارہ ہزار فوجی تعینات ہیں اور امریکہ نے وعدہ کیا کہ افغان فوج کے لیے وہ چار ارب ڈالر سالانہ ادا کرے گا۔
طالبان کا ملک کے تقریباً نصف پر کنٹرول ہے اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کے بعد بھی ان کی دہشت گرد کارروائیاں جاری رہیں۔