پشاور: جمعیت علما اسلام (ف) کے زیر اہتمام کل جماعتی سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ جاری

پشاور (ڈیلی اردو) جمعیت علما اسلام (ف) خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام منعقدہ کل جماعتی سربراہی کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ قوم کورونا وائرس سے نبرآزما ہے جس کیلئے قومی یکجہتی ناگزیر ہے ایسے حالات میں این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم جیسے غیر متنازعہ امور کو زیر بحث لاکر متنازعہ بنانے کے اقدامات قومی یکجہتی کو سبوتاژ کرنے کی شعوری کوشش ہے جس کی مذمت کی جاتی ہے، دھاندلی کی پیداوار حکومت کو حق نہیں پہنچتا کہ غیر معمولی اہمیت کی حامل 18 ویں ترمیم میں ردوبدل کرے اورآئین کی پارلیمانی و جمہوری روح کا خاتمہ کرے اور سابق ڈکٹیٹرز کے اقدامات کے احیا اور اعادہ کرے، چونکہ نئے قومی مالیاتی کمیشن کو معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی نئی پیش رفت سے حکومت کو اجتناب کرنا چاہئے اے پی سی میں بعض فیصلوں کی بھی منظوری دی گئی جس کے مطابق 18 ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی ملکی یکجہتی اور سالمیت کے لئے خطرناک ہوگی ٗ این ایف سی ایوارڈ میں انتظامی آرڈر کے ذریعے تبدیلی ناقابل قبول ہے وفاق کی آئینی ذمہ داریوں کو صوبوں پر ڈالنا قطعا قبول نہیں۔ 10 ویں این ایف سی ایوارڈ میں ہر صوبے کا ٹیکنیکل بورڈ ممبر  نان سٹیچوری ممبر اس صوبے کا رہائشی ہو، دسویں این ایف سی ایوارڈ میں ہر صوبے کا ٹیکنیکل بورڈ ممبر اس صوبے کے گورنر و صوبائی حکومت اور اپوزیشن کے باہمی مشاورت کے بعد نامزد کیا جائے، خیبرپختونخوا کے ساتھ فاٹا کے انضمام کے بعد اس کا حصہ بڑھا کر کثیر الاشاریہ فارمولے کے مطابق بنایا جائے، دسواں این ایف سی ایوارڈ چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ اور وفاقی وزیر خزانہ پر مشتمل ہونا چاہیے لیکن وفاقی وزیر خزانہ نہ ہونے کی وجہ سے صدر مملکت نے مشیر خزانہ کو ممبر بنایا ہے جو کہ غیر آئینی ہے جبکہ وزارت کی قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہونے سے وہ خود بھی ممبر ہونگے اسی طرح تین وفاقی نمائندے کمیشن کے ارکان بن گئے جس سے صوبوں اور وفاق کے درمیان بیلنس باقی نہیں رہے گا اس لئے مشیر خزانہ کی ممبر شپ غیر آئینی ہے۔ دسویں این ایف سی ایوارڈ میں آئین پاکستان کی دفعہ 160 کی شق 3 کے ذیلی شق اے کے تحت صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد سے بڑھایا جائے، کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وباء اور صوبائی حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں نے تمام تر اختلافات کے باوجود حکومت کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن سے متاثرہ خاندان کی ہر ممکن امداد بھی کی مشاورتی اجلاس میں فرنٹ لائن پر ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

کل جماعتی سربراہی کانفرنس اوورسیز پاکستانیوں کو درپیش مشکلات اور وزارت خارجہ کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ نے اوورسیز پاکستانیوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر نااہلی کا ثبوت دیا جبکہ وہاں پر نعشوں کو پاکستان لانے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ اوورسیز پاکستانیوں اور ڈیڈ باڈیز کو لانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں خیبرپختونخوا کے بجلی کے خالص منافع کے سی ایم کے فارمولے کے مطابق 500 ارب روپے بقایاجات فی الفور ادا کئے جائیں وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بجلی کے تمام صارفین کو تین ماہ کے بجلی کے بل معاف کئے جائیں، نیب کی طرف سے اپوزیشن قائدین کے خلاف یکطرفہ مسلسل انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں، آٹا کی قلت اور مہنگائی، پٹرول کی قلت اور مصنوعی مہنگائی ناقابل برداشت حد تک بڑھ رہی ہے جو کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی انتظامی نااہلی کا ثبوت ہے اس کی فی الفور روک تھام کی جائے، نئے ضم شدہ اضلاع میں شہریوں کے تحفظ کو بنایا اور امن وامان کا قیام اور قانون کی بالادستی یقینی بنائی جائے کورونا وبا اور لاک ڈاؤن سے معاشی طور پر متاثر ہونے والے تمام طبقوں کو جامع ریلیف پیکج دیا جائے،، آئین پاکستان کے آرٹیکل 158 کے تحت خیبرپختونخوا کو گیس کی پیداوار پر ترجیحی استعمال کا حق اور رائلٹی دی جائے، سربراہی کانفرنس ایک کمیٹی تشکیل دیتی ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین سے رابطے کریں اور قومی سطح پر ایک اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور صوبوں میں اے پی سیز کا انعقاد کیا جائے جو کہ درج ذیل اراکین پر مشتمل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں