بھارت کی مخالفت کے باوجود نیپالی پارلیمنٹ میں نیا نقشہ منظور کرلیا

کاٹھمنڈو (ڈیلی اردو) بھارت کی مخالفت اور ناراضگی کے باوجود نیپالی پارلیمنٹ کے ایوان نمائندگان نے ان علاقوں کو، جن پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے، شامل کرتے ہوئے نیپال کا نیا سیاسی نقشہ منظور کرلیا ہے۔
پہلے سے ہی سرحدی تنازعہ اور کشیدہ تعلقات کے درمیان اس نئی سیاسی پیش رفت سے دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہونا یقینی ہے۔

نیپالی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور شدہ ملک کے نئے سیاسی نقشے میں بھارت کے اترا کھنڈ ریاست سے ملحق علاقوں لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیا دھورا کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ بھارت ان علاقوں پر اپنا دعوی کرتا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان یہ سرحدی تنازعہ نیا نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ ماہ جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لیپو لیکھ سے تبت کے علاقے میں واقع ہندووں کے ایک مقدس مقام کیلاش مانسرورو جانے والی سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال نے اس کی زبردست مخالفت کی۔اس کے بعد اس نے 18مئی کو اپنا ایک نیا نقشہ جاری کردیا جس میں لیپو لیکھ، کالا پانی اور لمپیا دھورا کو نیپال کا حصہ دکھا یا گیا۔ نیپالی پارلیمنٹ نے اسی نقشے کو منظوری دی ہے۔

گوکہ نیپال میں وزیر اعظم کے پی اولی کو اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ خود حکمراں اتحاد میں شامل دیگر پارٹیوں کی مخالفت کا سامنا ہے لیکن اولی کے قوم پرستی کے کارڈ نے تمام رہنماوں کو متفق ہونے پر مجبور کردیا اور اب نیپالی صدر کے دستخط کے بعد یہ آئینی ترمیمی بل قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کے بعد نیپال اپنے تمام سرکاری دستاویزات میں اسی نئے نقشے کو استعمال کرے گا۔

بھارت نے اس پیش رفت پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی علاقائی سالمیت سے سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا کا کہنا تھا”نیپال اس معاملے میں بھارت کے مستقل موقف سے اچھی طرح واقف ہے اور ہم نیپال کی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غلط نقشے پیش کرنے سے گریز کرے اور بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرے۔“

دوسری طرف نیپالی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق نیپال کے وزیر خارجہ پردیپ گاولی کا کہنا ہے کہ نیپال نے اس تنازعہ کو سفارتی ذریعہ سے حل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بھارت نے اس پرتوجہ نہیں دی۔ پردیپ گاولی کے مطابق ”ہمیں اس بات سے صدمہ پہنچا ہے کہ سرحدی تنازعہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی ہماری تجویز کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر بھارت اورچین اپنے مسئلے حل کرسکتے ہیں تو ایسی کوئی وجہ نہیں کہ نیپال اور بھارت ایسا نہ کرسکیں۔ ہمیں امید ہے کہ جلد ہی بات چیت ہوسکے گی۔“

لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ چونکہ ابھی ملک کورونا وائرس کے بحران سے دوچار ہے اس لیے سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے حوالے سے کوئی بات چیت کووڈ 19 وبا کے ختم ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔

مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت اور نیپال کے تعلقات میں دوری مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
نیپال اس سات عشرے پرانے سرحدی تنازعہ کو حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ جولائی 2000 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور نیپالی وزیر اعظم جے پی کوئرالہ اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اس سرحدی تنازعہ کوسفارتی چینل کے ذریعہ حل کرلیا جائے گا۔ تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 2015 میں معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا تھا جب بھارت اور چین نے نیپال کو نظر انداز کرکے لیپولیکھ کے راستے ایک سڑک کی تعمیر کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس پرنیپال کے اعتراض کا دونوں ملکوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بھارتی وزیر دفاع نے گزشتہ 8 مئی کو اسی سڑک کا افتتاح کیا تھا جس کے بعد نیپال کی ناراضگی بڑھ گئی۔

بھارت اور نیپال کے درمیان یوں تو تاریخی ’بیٹی اور روٹی‘ کا رشتہ رہا ہے لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں میں دوری مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ نیپالی وزیر اعظم نے اپنے ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جب کہ 2015 میں بھارت پر نیپال کے نئے آئین کی مخالفت کرنے والوں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگایا تھا۔

نیپال کے وزرائے اعظم کے خارجی امور میں مشیر اور اقو ام متحدہ میں سفیر رہ چکے دنیش بھٹارائی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ سرحدی تنازعہ گومعمولی دکھائی دیتا ہے لیکن اگر اسے بروقت حل نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں اس کے انتہائی دور رس جغرافیائی اور سیاسی مضمرات ہوں گے۔ نیپال ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر پھلنا پھولنا چاہتا ہے اور اپنے پڑوسیوں کے لیے مدد گار بننا چاہتا ہے۔ بھٹا رائی نے مزید لکھا ہے کہ ایک دوسرے کی فکر مندیوں کو سمجھنے میں بڑھتی ہوئی خلیج نے نیپالی قوم پرستی کی آگ کو ہوا دی ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتمادی اور شبہات کے گھنے بادل پیدا ہوگئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں