‏لداخ: وادی گلوان میں چین اور بھارتی فوج میں جھڑپیں، بھارتی کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کی فوج کا کہنا ہے کہ پیر کی شب چینی فوج کے ساتھ وادی گلوان میں ہونے والی سرحدی جھڑپ میں شدید زخمی ہونے والے فوجیوں میں سے 17 ہلاک ہوگئے ہیں جس سے ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی کل تعداد 20 ہوگئی ہے۔

انڈیا کی فوج کے بیان کے مطابق گلوان کے علاقے میں 15 اور 16 جون کی درمیانی شب جہاں دونوں فوجوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی وہاں سے اب فوجیں پیچھے ہٹ گئی ہیں۔

پیر کی صبح بتایا گیا تھا کہ چھڑپ میں انڈیا کے ایک کرنل سمیت تین اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اب انڈین فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چھڑپ میں شدید زخمی ہونے والے 17 فوجی بھی ہلاک ہوگئے ہیں جس سے ہلاک ہونے والے فوجی اہلکاروں کی کل تعداد 20 ہوگئی ہے۔

چین اور انڈیا کی متنازع سرحد پر کسی جھڑپ میں ہلاکت کا کم از کم 45 برس میں یہ پہلا واقعہ ہے۔

انڈین فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ جھڑپ پیر کی شب متنازع وادی گلوان کے علاقے میں ہوئی جہاں فریقین کی افواج کی پسپائی کا عمل جاری تھا۔

فوجی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس جھڑپ میں چینی فوج کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے تاہم چینی حکام کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے انڈین فوج کی جانب سے دیے گئے بیان کے مطابق اس واقعے کے بعد انڈیا اور چین کے سینیئر فوجی حکام وادی گلوان میں ملاقات کر رہے تھے تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔

انڈیا کی حکومت کی طرف سے اس بارے میں ابھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا لیکن فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی حکام نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ اس کے فوجیوں نے سرحد عبور کر کے چینی اہلکاروں پر حملہ کیا۔

اے ایف پی کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجیان نے کہا کہ انڈین فوجیوں نے پیر کو دو بار سرحد پار کی اور انھوں نے ‘ چینی فوجیوں کو اشتعال دلوایا، ان پر حملے کیے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان زبردست جھڑپ ہوئی۔’

منگل کو انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے وادی گلوان کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ملک کے چیف آف ڈیفنس سٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس میں بھی شرکت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر بھی موجود تھے۔

وادی گلوان لداخ میں انڈیا اور چین کی سرحدی لائن کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور اس تناؤ کو سنہ 1999 میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا ہے۔

اس سے قبل سنہ 2017 میں انڈیا اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئی تھیں لیکن گذشتہ ایک ماہ کے دوران مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

ماضی قریب میں انڈیا اور چین کے درمیان اس علاقے میں چار جھڑپیں ہوئی ہیں لیکن کسی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں۔

صورتحال کشیدہ کیوں ہوئی؟

مئی میں بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا تھا کہ ’مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیا کے ذریعے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے۔‘

مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کے نزدیک پانچ اور چھ مئی کو چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی۔

انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی نے انٹیلیجنس ماہرین کے اوپن سورسز ڈیٹریسفا کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین پینگوگ جھیل سے 200 کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے ایئر بیس پر بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کر رہا ہے۔

اس نے چھ اپریل کی ایک سٹیلائٹ تصویر پیش کی ہے اور اس کا مقابلہ 21 مئی کی سیٹلائٹ تصویر سے کیا ہے جس میں واضح فرق دکھایا گیا ہے۔

اس سے قبل انڈیا نے کہا تھا کہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔

اسی کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ انڈیا وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے۔

انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع کیا ہے؟

انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور سنہ 1962 کی جنگ کے بعد یہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار 488 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیشمیں انڈیا سے ملتی ہے اور اس سرحد کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹر یعنی جموں و کشمیر، مڈل سیکٹر یعنی ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ اور مشرقی سیکٹر یعنی سکم اور اروناچل پردیش۔

بہر حال انڈیا اور چین کے درمیان سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہوئی اور جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے اسے ایل اے سی کہا گیا ہے تاہم دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقے پر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں جو کشیدگی کا باعث بھی رہا ہے۔

انڈیا مغربی سیکٹر میں اکسائی چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ خطہ اس وقت چین کے کنٹرول میں ہے۔ سنہ 1962 کی جنگ کے دوران چین نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

دوسری جانب چین مشرقی سیکٹر میں اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی تبت کا ایک حصہ ہے۔ چین تبت اور اروناچل پردیش کے مابین میک موہن لائن کو بھی قبول نہیں کرتا ہے۔

مجموعی طور پر چین اروناچل پردیش میں میک موہن لائن کو قبول نہیں کرتا اور اس نے اکسائی چین سے متعلق انڈیا کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں