عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آگئی، سنسنی خیز انکشافات

کراچی (ڈیلی اردو) لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے کارناموں کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آگئی، عزیر بلوچ نے 198 افراد کو مارنے، اور ایرانی انٹیلی جنس سے ملاقات کا اعتراف، بیرون ملک فرار کے باوجود ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ دبئی بھیجا جاتا رہا، مختلف ہتھیار خریدنے کا بھی انکشاف کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پیر کو پبلک کی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے 198 افراد کو مارنے کا اعتراف کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے لسانی اور گینگ وار تنازع میں تمام افراد کو قتل کیا۔ اس نے اثر و رسوخ کی بنیاد پر 7 ایس ایچ اوز تعینات کروائے۔

عزیر بلوچ نے اقبال بھٹی کو ٹی پی او لیاری تعینات کروایا جبکہ 2019ء میں محمد رئیس کو ایڈمنسٹر لیاری لگوایا۔

ملزم کے بیرون ملک فرار کے باوجود ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ دبئی بھیجا جاتا رہا۔

دو ہزار اٹھ سے دو ہزار تیرہ کے دوران مختلف ہتھیار خریدنے کا انکشاف بھی جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جبکہ ملزم کے متعدد افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔

عزیر بلوچ نے دوران تفتیش ایرانی شہریت کا بھی اعتراف کیا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر نے اقرار کیا ہے کہ ان کی رشتے دار خاتون عائشہ ایران کی مستقل رہائشی ہیں، جن کے پاس پاکستان اور ایران دونوں کی شہریت ہے۔ ان کا بیٹا 14 سال کی عمر میں انتقال کرگیا تھا۔ سنہ 1987 میں ملزم کی رشتے دار نے ملزم کی تصویروں سے ایران میں اپنے بیٹے کے نام سے جعلی برتھ سرٹیفیکٹ بنوایا۔

ملزم 2006 میں لیاری میں آپریشن کی وجہ سے کزن کے ہمراہ ایران چلے گئے جہاں انھوں نے اپنا ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوایا۔

عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ سنہ 2014 میں ایران کے شہر چاہ بہار میں انھیں حاجی ناصر نامی جاننے والے نے پیشکش کی کہ اس کے ایرانی انٹیلیجنس سے اچھے تعلقات ہیں، وہ ان کی ملاقات کا انتظام کر سکتا ہے۔ ملزم کی مرضی سے اس ملاقات کا انعقاد کرایا گیا۔ جس میں ایرانی انٹیلیجنس حکام نے پاکستان کے فوجی افسران اور تنصیبات کی معلومات فراہم کرنے کے لیے کہا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عزیر بلوچ فوجی تنصیبات اور افسران کی خفیہ معلومات اور نقشے غیر ملکی ایجنسی کے افسران کو فراہم کرنے میں ملوث ہیں اسی لیے سفارش کی جاتی ہے کہ ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

اس سفارش کے بعد عزیر بلوچ کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور ملٹری ٹرائل کورٹ سے بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

خیال رہے کہ آج سندھ حکومت نے عزیز بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹی پبلک کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ تینوں جے آئی ٹی رپورٹ محکمہ داخلہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔

ترجمان سندھ حکومت نے جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ عزیر بلوچ، نثار مورائی، بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹیز کے حوالے سے وفاقی علی زیدی بہت دنوں سے پریس کانفرنسز کر رہے ہیں۔

انہوں نے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کیلئے جو واویلا مچایا اس کا رپورٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان رینجرز سندھ نے جنوری سنہ 2016 میں کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عزیر بلوچ کے خلاف لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل اور اقدام قتل سمیت بھتہ خوری کے کئی مقدمات درج ہیں جن میں سے ایک مقدمے میں حال ہی میں انھیں بری بھی کیا گیا تھا۔

عزیر بلوچ سنہ 2013 میں کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے جس کے بعد سندھ حکومت نے کئی مرتبہ ان کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔

عزیر بلوچ نے لیاری امن کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم بھتہ خوری سمیت کئی جرائیم میں ملوث ہے، جس کے بعد ایم کیو ایم ہی کے مطالبے پر پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت کے وزیرِ داخلہ نے لیاری امن کمیٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں