اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کرلیا ہے جس پر ان کی اپنی سگی بیٹی نے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔
خاتون نے اپنے والد کے خلاف مبینہ طور پر جنسی زیادتی، جنسی عمل کی ویڈیو بنانے اور حبس بے جا میں رکھنے کے الزامات میں مقدمہ درج کروایا ہے تاہم خاتون کے والد نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد نے انھیں اپنی مرضی سے شادی کرنے کے جرم میں آٹھ سال تک زنجیروں میں باندھے رکھا۔
گدائی تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر شکیل بخاری کے مطابق پولیس کی جانب سے ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا جس کے بعد عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جبکہ مدعی خاتون کو عدالت نے دارالامان بھیج دیا ہے۔
جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے ڈی این اے حاصل کیے کیے گئے ہیں جن کی رپورٹ آنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔
پولیس کے مطابق خاتون کے بیان کی روشنی میں ہی اب عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ انھیں ان کے شوہر یا والدین میں سے کس کے حوالے کیا جائے۔
انسپکٹر شکیل بخاری کے مطابق خاتون کے والد نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ ان سے جنسی زیادتی کا یہ عمل غلطی سے ہو گیا۔
دوسری جانب خاتون کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ ان کی بہن اپنے شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی تھیں، اس لیے انھوں نے اپنے والد پر یہ الزام لگایا۔
پسند کی شادی پر ناراضگی
خاتون کا کہنا ہے کہ سنہ 2012 میں انھوں نے اپنی مرضی سے سے شادی کی۔ جس پر ان کے والد نے ان کے شوہر پر اغوا کا مقدمہ درج کروایا جو عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالت نے خارج کر دیا۔
خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ پسند کی شادی کے بعد نہ صرف ان پر بلکہ ان کے بھائیوں پر بھی جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے اور انھیں بہت پریشان کیا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران انھیں اغوا کر کے تین ماہ بلوچستان میں رکھا گیا اور ان کے والدین کو کہا گیا کہ پیسے دو یا پھر لڑکی واپس کرو نہیں تو تمہارے لڑکے کو مار دیں گے۔
خاتون کے مطابق ان کے والد نے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ گھر واپس چلی جائیں تو ان کے شوہر کو بازیاب کرائیں گے۔
’میں نے کہا ٹھیک ہے ایسا کر لیتے ہیں، اس کے بعد میرے شوہر کو رہا کیا گیا۔‘
باعزت رخصتی کا معاہدہ
خاتون کے مطابق سنہ 2013 میں معززین کے ذریعے انھیں والدین کے ساتھ اس شرط پر بھیجا گیا تھا تاکہ باقاعدہ رخصتی کا اہتمام کیا جا سکے۔
خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے معززین کی بات مان لی اور اپنی بیوی کو والدین کے حوالے کر دیا۔
خاتون کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت حاملہ تھیں مگر معززین کے کہنے پر والدین کے گھر چلی گئیں، جہاں پانچ روز بعد ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور ان کے والد نے ان کی نومولود بیٹی کو پندرہ دن بعد تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
خاتون نے اپنے والد پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’میری آنکھوں کے سامنے میری نومولود بیٹی کو زمین پر پٹخا اور لاتیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔‘
یاد رہے کہ خاتون کی جانب سے دائر مقدمے میں بچی کی ہلاکت کا ذکر شامل نہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جو مقدمے میں بتایا گیا ہے تحقیقات اسی حد تک کی جارہی ہیں تاہم خاتون کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ بچی بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئی تھی۔
پیر میں زنجیر باندھ دی
خاتون کے مطابق ان کے والد انھیں بیٹھک میں صفائی کے بہانے بلا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے تھے اور اس دوران بنائی گئی ویڈیوز سے انھیں بلیک میل کرتے رہے۔
خاتون کے مطابق ان کے والد نے انھیں دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کسی کو بتایا تو وہ انھیں جان سے مار دیں گے۔
خاتون کے مطابق ’وہ مجھے گھر میں اور رات کو چارپائی سے باندھ دیتے تھے، پیر میں بندھی ہوئی زنجیر کے ساتھ ویڈیو بھی والد نے ہی بنائی تھی۔‘
خاتون کا کہنا ہے کہ والد کی زیادتی کی شکایت انھوں نے متعدد بار گھر والوں اور رشتے داروں کو بھی کی لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔
’والد کی زیادتی کی شکایت اپنی والدہ، چچا اور والد کے ماموں کو بھی کی، جن کا کہنا تھا کہ زیادتی کر رہا ہے تو ٹھیک ہے لیکن شوہر کے گھر نہیں جا سکو گی۔‘
’میری والدہ نے کہا کہ تم بار بار شکایت کرتی ہو تمہاری ماں کو طلاق ہو جائے گی، تم چپ رہو، میں چپ رہی۔‘
خاتون کے والد نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی بیٹی نے گھر سے بھاگ کر شادی کی جو دو سال برقرار رہی اور پھر طلاق ہو گئی، جس کے بعد وہ ان کے پاس گھر آ گئیں۔
ان کے مطابق ان کی بیٹی اپنے سابق شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی تھی جس پر وہ انھیں منع کرتے تھے۔
پولیس کو تحریری طور پر دیے گئے اپنے بیان میں ملزم نے مزید کہا کہ بڑی بیٹی ہونے کے ناطے گھر کا کھانا ان کی یہ بیٹی ہی بناتی تھی۔
ان کے مطابق کچھ دنوں سے کھانا کھانے کے بعد ان کی طبعیت کچھ عجیب سی ہو جاتی تھی اور چار، پانچ گھنٹوں کے بعد دماغ ماؤف ہو جاتا۔
ان کے مطابق 17 جون 2020 کی دوپہر کو وہ اپنے گھر کی بیٹھک میں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے کہ ان کی بیٹی نے پیر مار کر انھیں جگایا اور نیم بے ہوشی کی حالت میں ان کے ساتھ گناہ کا کھیل کھیلا۔
خاتون کے والد کے بقول ان کی بیٹی نے منصوبہ بندی کے ساتھ ان کے موبائل سے ہی اس عمل کی ویڈیو بنائی۔
ملزم نے اپنے بیان میں کہا ’میں جب شام کو مکمل ہوش میں آیا تو میری بیٹی نے کہا کہ مجھے میرے شوہر کے پاس جانے دیں ورنہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دوں گی، میرے انکار پر تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور انھوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔‘
خاتون کا مؤقف ہے کہ ’مجھے شوہر نے طلاق نہیں دی تھی، والد نے مجھے اسی وجہ سے بٹھایا ہوا تھا کہ میری کہیں اور بھی شادی نہ ہونے دیں۔‘
شوہر نے ثبوت مانگا
خاتون کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ساری صورتحال سے اپنے شوہر کو آگاہ کر دیا۔
خاتون کے شوہر نے بتایا کہ ’ایک روز میری بیوی نے کہا میں تمہیں دل کی بات بتاتی ہوں کہ میرے ساتھ کیا ظلم ہوا اس دوران وہ فون پر روتی رہی ہے۔ میں پورا قصہ سننے کے بعد ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کچھ کرے گا۔‘
خاتون کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو ثبوت دینے کے لیے ویڈیو بنائی۔
خاتون کے شوہر نے ان معززین کو شکایت کی اور ان سے بھی ویڈیو شیئر کی، جس کے بعد پولیس حرکت میں آ گئی۔ انسپکٹر شکیل بخاری کا کہنا ہے کہ انھیں اطلاع ملی کہ والد نے بیٹی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔
ان کے مطابق لیڈیز پولیس نے چھاپہ مار کر خاتون کو بازیاب کرا کے تھانے منتقل کیا اور ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی۔
پولیس کے مطابق والد کے موبائل سے وہ ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی بیٹی کو بلیک میل کرتا تھا۔