بھارت چین کشیدگی: گلوان میں دونوں ممالک کی افواج نے واپسی کا عمل شروع

نئی دہلی + بیجنگ (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) انڈیا اور چین کی فوجوں کے پیچھے ہٹنے کی اطلاعات کے درمیان چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک سرحد پر تناؤ کو کم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ تاہم چین نے اپنے بیان میں واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ آیا اس کی فوج پیچھے ہٹی ہے یا نہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان سے پوچھا: ‘انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق چین وادی گلوان سے، جہاں دونوں ممالک کے درمیان تصادم ہوا تھا، اپنے خیمے اور آلات لے کر پیچھے ہٹ گئی ہے۔ کیا آپ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں؟’

اس کے جواب میں، ژاؤ لیجیان نے کہا: ’ چین اور انڈیا کے فوجی اہلکاروں نے 30 جون کو کمانڈر سطح کی تیسرے دور کی بات چیت منعقد کی۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ان باتوں پر عملدرآمد کریں گے جس پر گذشتہ دو دور کی کمانڈر سطح کی بات چیت میں اتفاق کیا گیا ہے۔ ہم نے سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انڈیا اپنی طرف سے اتنا ہی فاصلے برقرار رکھے گا، دونوں (ممالک) کے مابین ہونے والے اتفاق پر عمل درآمد کے لیے سخت اقدامات کرے گا، چین کے ساتھ فوجی اور سفارتی چینلز کے توسط سے رابطے میں رہے گا اور چین کے ساتھ سرحدی علاقوں میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے کام کرتا رہے گا۔‘

روئٹرز کے مطابق سوموار کو لیے گئے اقدامات ایل اے سی پر انڈیا اور چین کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی راہ میں اہم تھے لیکن اس کا فوج کی چوکسی، ان کی تیاریوں اور لداخ کے پہاڑی علاقوں میں طویل عرصے سے کی جانے والی تیاریوں پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج کو سرحد کے نئی حقائق سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا جہاں گذشتہ ماہ پانچ دہائیوں سے زیادہ کے عرصے بعد خون بہایا گیا تھا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں فوجوں کے مابین شدید عدم اعتماد ہے جو گذشتہ نو ہفتوں میں سرحد پر پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

15 جون کو وادی گلوان میں پرتشدد جھڑپ کے باوجود کمانڈر سطح کی بات چیت کے بعد گلوان سیکٹر میں دونوں ممالک کی افواج نے واپسی کا عمل شروع کیا۔

وادی گلوان میں ہونے والے تشدد کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں اور انھیں ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ کہا جارہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تناؤ کو کم کرنے کے عمل میں انڈیا دگنا احتیاط برت رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

روئٹرز نے فوج کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ کشیدگی والے علاقوں میں ابتدائی اقدامات کرنے میں ہی دو سے تین ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی فوج کے کمانڈروں کے درمیان ملاقات ہوگی اور اس کے بعد پھر اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مہینوں تک نہیں تو فوج کی تعیناتی چند ہفتوں تک وہاں جاری رہے گی۔

فوج کو اس بات کی بھی تشویش ہے کہ ابتدائی اقدامات کیے جانے کے باوجود جب تک چینی فوج ایل اے سی کے قریب بڑی تعداد میں موجود ہے تو چین کسی بھی وقت الٹی سمت میں چل سکتا ہے۔ لہذا انڈین فوج اپنی طرف سے ڈھیل نہیں دکھائے گی اور نہ ہی وہ ان علاقوں سے فوجیوں کو کم کرنے کے بارے میں سوچے گی۔

فوج اور بڑے ہتھیاروں کو آہستہ آہستہ ہٹایا جائے گا اور وہ بھی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ دوسری طرف سے کتنی فوج یا اسلحے ہٹائے جا رہے ہیں۔ اتوار کو انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان بات چیت ہوئی۔ دونوں ممالک نے افواج کے انخلاءاور سرحد پر امن کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔

ڈوبھال اوروانگ نے اس سے قبل سنہ 2018 اور 2019 میں بھی ملاقات کی تھی۔ وادی گلوان میں ایک کرنل اور دو میجروں سمیت 20 فوجیوں کی ہلاکت کے دو دن بعد 17 جون کو وزیر خارجہ ایس ایس جے شنکرنے بھی وانگ یی سے بات چیت کی تھی۔

پیر کو اپنے بیان میں انڈین وزارت خارجہ نے کہا کہ ڈوبھال اور وانگ نے ایل اے سی پر تناؤ کم کرنے کے عمل کو تیز کرنے اور جلد ہی اس عمل کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اپنے سرکاری بیان میں وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ‘دونوں فریق مرحلہ وار انداز میں ڈی سکیلیشن کو یقینی بنائیں گے۔’

وزارت خارجہ نے کہا کہ دونوں فریقوں نے ‘ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ ایل اے سی کا سختی سے احترام کیا جانا چاہیے’ اور ‘بدستور چلے آر رہے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے یکطرفہ اقدام نہیں کرنا چاہیے’ اور ‘مستقبل میں کسی بھی ایسے واقعے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جسی سے سرحدی علاقوں میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو۔’

چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دونوں فریقوں نے حالیہ فوجی اور سفارتی ملاقاتوں میں حاصل ہونے والی پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے، بات چیت اور مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے، اور کمانڈر سطح پر قائم ہونے والے اتفاق کو یقینی بنانے کے لیے جلد اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں