تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ مذہبی آزادیوں سے متصادم ہے، واپس لیا جائے، وفاق المدارس الشیعہ

لاہور (ڈیلی اردو/آن لائن) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گے تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کو آئین میں دی گئی مذہبی آزادیوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دستور ِ پاکستان میں اسلامی بنیادوں کا تحفظ موجود ہے۔ قیام پاکستان کے 72 سال بعد پنجاب اسمبلی میں ایک ایسے تکفیری گروہ کو خوش کرنے کے لئے متنازعہ بل پیش کیا گیا جس کا دامن اِس ملک کے ہزاروں شہریوں کے خون سے آلودہ ہے۔انہوں نے گورنر پنجاب سے مطالبہ کیا  ہے کہ وہ اس متنازعہ بِل پر دستخط نہ کریں تاکہ حکومت کے لئے مزید مسائل پیدا نہ ہو سکیں۔ اس بل کے بعض حصوں کے ضمن میں کافی تاریخی متنازعہ مسائل سر اٹھائیں گے جن سے نبٹنا حکومت کے بس میں نہ ہو گا لہٰذا حکومت عوام اور اپنے لئے غیر ضروری مشکلات سے بچنے کے لئے مذکورہ متنازعہ بل واپس لے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت  کے ساتھ ”علیہ السلام ” بولا اور لکھا جانا آج سے نہیں، ابتدائے اسلام سے ہے جس میں تاریخ کی مضبوط حکومتیں بھی تبدیلی نہ کرسکیں۔ یہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے جس میں تبدیلی کا نہ کسی کو اختیار ہے اور نہ ملت جعفریہ اسے قبول کرے گی۔

وفاق المدار س الشیعہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں علامہ محمد افضل حیدری نے واضح کیا ہے کہ تمام محب وطن اور ذمہ دار دینی حلقوں نے پنجاب اسمبلی میں عجلت میں پیش کردہ تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ کو آئین میں دی گئی مذہبی آزادیوں سے متصادم قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدیوں سے طے شدہ عقیدتی مسائل کو چھیڑنا سیاسی مصلحت و دانشمندی کے بھی خلاف ہے جو کسی طور قابلِ قبول نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق المدارس الشیعہ متنازعہ بل کو مذہبی آزادی، بین المسالک رواداری اور ملکی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہونے کی بنا پر مسترد کرتا ہے۔

علامہ محمد افضل حیدری نے کہا کہ ملکی قوانین اورتعزیرات ِ پاکستان میں مذہب سے متعلق تمام جرائم کی سزا مقرر ہے جن کے ہوتے ہوئے مزید کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت ،ریاست ِ مدینہ جیسے نظام کے قیام کے دعووئںپر عمل کرنے کی بجائے ایسے امن دشمن عناصر کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہے جن کی شناخت ہی مذہب کے نام پر فرقہ واریت اور دہشت گردی ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے حکومت کی عوامی مقبولیت بھی شدید متاثر ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت اس طرح کی متنازعہ قانون سازی سے حالات خراب کرنے کی بجائے عوامی مشکلات کے خاتمے اور دستور میں دی گئی مذہبی آزادیوں کو یقینی بنانے پر توجہ دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں