کراچی پریس کلب میں رینجرز کا داخلہ، صحافیوں کی شدید مذمت

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پریس کلب کی انتظامیہ کے مطابق رینجرز کے اہلکار کلب میں داخل ہوئے اور کچھ دیر تلاشی کے بعد واپس چلے گئے۔ کراچی پریس کلب کی انتظامیہ نے اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’پریس کلب کا تقدس پامال‘ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح گیارہ بجے کے قریب پیش آیا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق چار موبائیلوں میں سوار اہلکار گیٹ کے اندر داخل ہوئے اور عمارت کے گرد چکر لگایا اور تصاویر بنائیں۔ بعض ویڈیوز میں نظر آرہا ہے کہ وہ داخلی راستے کے پودوں کا بھی معائنہ کر رہے ہیں۔

جب بعض صحافیوں نے اہلکاروں کی تصاویر بنانے کی کوشش کی تو انھیں سختی سے روک دیا گیا۔ یہ اہلکار کچھ دیر وہاں موجود رہنے کے بعد واپس چلے گئے۔

کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی نے ایک اعلامیے میں رینجرز کے کلب میں داخلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’امن و امان اور تحفظ کے معاملات خاص اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کو بنیاد بنا کر پریس کلب کے احاطے میں گھس آنا تشویش کا باعث ہے اور اس پر صحافی برادری احتجاج کرتی ہے۔‘

کراچی پریس کلب کا شمار ملک کے سب سے پرانے پریس کلبوں میں ہوتا ہے اور یہاں وردی پہن کر جانے پر پابندی ہے

کراچی پریس کلب کے سیکریٹری ارمان صابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رینجرز اہلکار کسی پیشگی اطلاع اور اجازت کے بغیر پریس کلب میں داخل ہوئے تھے اور اس عمل پر انھیں تحفظات ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ سٹاک ایکسچینج پر حالیہ حملے کے بعد پولیس کے مطابق سکیورٹی الرٹ ہے اور پریس کلب کو سکیورٹی کی فراہمی کے لیے پولیس حکام سے ملاقات ہو چکی ہیں، جس کے بعد ایک پولیس موبائل پریس کلب کے باہر تعینات کی گئی ہے۔

ارمان صابر کے مطابق اگر رینجرز اہلکار پریس کلب کے اندر سکیورٹی ریہرسل بھی کرنا چاہتے تھے تو اعتماد میں لیا جاتا اور اس کا کوئی طریقہ کار واضح کیا جاتا۔

’کراچی پریس کلب کی روایت کے مطابق یہاں یونیفارم میں اہلکار نہیں آتے، خود یونیفارم والے بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں، رینجرز نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس پر ہمیں تحفظات ہیں۔‘

کوئی سکیورٹی خدشات تھے، کوئی اطلاعات تھیں یا پھر ریہرسل تھی؟ اس بارے میں موقف جاننے کے لیے رینجرز ترجمان سے رابطے کی کئی بار کوشش کی گئی تاہم ان کا موقف سامنے نہیں آسکا ہے۔

کراچی پریس کلب پاکستان کا ایک پرانا اور متحرک پریس کلب ہے اور جنرل ایوب خان، جنرل ضیاالحق کے ادوار میں مزدوروں، طلبہ، خواتین اور صحافیوں کی تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔

سندھ اور بلوچستان کے بیشتر شہروں سے لوگ یہاں آ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ناانصافیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں، جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل احتجاج بھی یہیں کیے گئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی سمیت مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا مرکز بھی کراچی پریس کلب رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں