القاعدہ کو مدد فراہم کرنے کے الزام میں امریکی خاتون گرفتار

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ایک امریکی خاتون کو دہشت گرد گروپ القاعدہ کی مدد کرنے کے الزام میں ریاست ایری زونا سے گرفتار کیا ہے۔

جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکی محکمۂ انصاف نے بتایا کہ جِل میری جونز شینڈلر کو بدھ کے روز فینکس ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا جب وہ القاعدہ میں شامل ہونے کے لیے سفر کرنے والی تھیں۔

ایف بی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خاتون جِل جونز ‘ایف بی آئی’ کے دو خفیہ ایجنٹوں کے ساتھ بات کر رہی تھیں، جن میں سے ایک کو وہ القاعدہ کا رکن سمجھتی تھیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ”انہوں نے اُس خفیہ ایجنٹ کو رقم بھیجنے کا وعدہ کیا تاکہ وہ القاعدہ ارکان کے لیے رائفلوں پر نصب ہونے والی دوربینیں خرید سکیں، جنہیں استعمال کر کے امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا جا سکے۔”

اپنی درخواست میں ایف بی آئی نے کہا ہے کہ اسی مقصد کے لیے مئی میں جونز نے اسی خفیہ ایجنٹ کو 500 ڈالر کا پری پیڈ گفٹ کارڈ بھیجا۔

محکمۂ انصاف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جِل جونز نے القاعدہ میں شمولیت کے لیے افغانستان کا ٹکٹ خریدا مگر ہوائی اڈہ بند ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی پرواز تبدیل کر کے ترکی جانے کا ارادہ کیا جہاں سے وہ شام جانا چاہتی تھیں۔

امریکی محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی میں دہشت گردی سے متعلق امور کے سابق سینئر تجزیہ کار، ڈیرِل جانسن کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایسی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ جانسن کہتے ہیں کہ ہر سال ایسی درجن بھر گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں، جہاں لوگ امریکہ سے جا کر دوسرے ملکوں میں غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا سمندر پار دہشت گردی کیلئے مالی یا دوسری امداد فراہم کرتے ہیں۔

جانسن کہتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر گرفتاریاں خفیہ کارروائیوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں، جب ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹ القاعدہ یا داعش کے رکن بن کر مشتبہ افراد سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔

سفری منصوبے

ایف بی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک دفعہ جِل جونز نے ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹ کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ القاعدہ عسکریت پسندوں میں شامل ہونے کیلئے، وہ افغانستان کے شہر قندوز جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس کا مشورہ جل جونز کو ایک نامعمول شخص نے آن لائن بات چیت کے دوران دیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ہفتے کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اب بھی افغانستان کے 12 صوبوں میں متحرک ہے۔ ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ، جیسی عسکریت پسند تنظیمیں قندوز میں متحرک ہیں۔

ایک بار بات چیت کے دوران جل جونز نے خفیہ ایجنٹ کے سامنے القاعدہ کیلئے اپنی حمایت کا اظہار کیا تھا۔

ایف بی آئی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں عائد سفری پابندیاں بھی جل جونز کو القاعدہ میں شمولیت کیلئے سفر سے نہ روک سکیں۔ جل جونز نے 13 جون کو خفیہ ایجنٹ سے ترکی کے راستے شام جانے پر بات کی، تاکہ حراس الدین نامی گروپ میں شامل ہو سکے۔

شام کے صوبے ادلب میں متحرک، حراس الدین ایک شدت پسند گروپ ہے۔ جہادیوں کے اس دھڑے کا شام میں سرگرم القاعدہ سے الحاق ہے۔

آن لائن شدت پسندی

تجزیہ کار ڈیرِل جانسن کہتے ہیں کہ القاعدہ سے الحاق رکھنے والے بہت سے گروپ دنیا بھر میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کیلئے خصوصی طور پر تیار کیا گیا آن لائن پراپیگنڈا مواد جاری کرتے ہیں۔

جانسن کہتے ہیں کہ بہت سے امریکی یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دیکھنے سے شدت پسندانہ نظریات کے قائل ہو جاتے ہیں اور جزیرہ نما عرب میں سرگرم القاعدہ گروپ کی امریکہ میں وسیع تر رسائی ہے۔ القاعدہ کےشدت پسند نظریات پھیلانے والے انگریزی زبان کے آن لائن جریدے، ‘اِنسپائر میگزین’ کے پیچھے مبینہ طور پر القاعدہ کا پرچار کرنے والا امریکی نژاد انور الاولقی تھا، جو یمن میں سن 2011ء میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

ڈیرِل جانسن کہتے ہیں کہ انسپائر میگزین کو خصوصی طور پر امریکیوں کیلئے تحریر کیا جاتا تھا اور اس کے پرانے میگزین ابھی تک آن لائن دستیاب ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں