بھارت میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں ‘توہین آمیز’ پوسٹ کیخلاف احتجاج، 3 افراد ہلاک، 145 گرفتار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کے جنوبی ضلع بنگلور میں ایک مبینہ توہین آمیز پوسٹ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور تقریباً 145 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک مقامی سیاستدان کے گھر کے سامنے ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ سیاستدان کے ایک رشتہ دار پر پیغمبرِ اسلام کے خلاف ‘جارحانہ’ پوسٹ لکھنے کا الزام تھا۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ مشتعل بھیڑ نے پولیس پر خلاف پتھر برسایے اور ان کی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

بنگلور کے پولیس کمشنر کمل پنت کے مطابق ڈی جی ہللی اور کے جی ہللی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ پورے شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔

مشتعل ہجوم نے دو پولیس سٹیشن اور ایک قانون ساز کے گھر پر حملہ بھی کیا جس کے بعد پولیس کو گولی چلانی پڑی۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے بنگلور کے جوائنٹ پولیس کمشنر (کرائم) سندیپ پاٹل کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس معاملے میں اب تک 110 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

پولیس کمشنر کمل پنت نے بتایا: ‘گذشتہ رات پولیس فائرنگ میں زخمی ہونے والے تیسرے شخص کی موت ہو گئی ہے۔ ساڑھے بارہ بجے شب سے یہاں کی صورتحال تقریباً قابو میں ہے۔’

اطلاعات کے مطابق ایک ایم ایل اے کے رشتہ دار نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر ایک قابل اعتراض پوسٹ شائع کی تھی جس کے خلاف منگل کی شام لوگوں کی بڑی تعداد پولیس اسٹیشن پہنچی اور پوسٹ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم کا مطالبہ تھا کہ ایف آئی آر درج کی جائے اور ایم ایل اے کے رشتہ دار کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے کیونکہ اس نے ان کے مذہبی جذبات مجروح کیے ہیں۔

https://twitter.com/iam_nuammir/status/1293289779816050689?s=19

دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم بے قابو ہوگیا اور پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑی کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا جبکہ ایم ایل اے کے گھر باہر جمع ہونے والے ہجوم نے بھی وہاں کھڑی کچھ گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

پولیس کمشنر کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پولیس کمشنر نے کہا: ‘پولیس اہلکاروں پر (ہجوم نے) بڑے پتھروں سے حملہ کیا۔ پھر اچانک بجلی چلی گئی اور ہمیں ہجوم سے نمٹنے میں کچھ وقت لگا۔ چونکہ تھانے پر چاروں طرف سے حملہ کیا جارہا تھا اس لیے پولیس کو گولی چلانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔’

کرناٹک کے وزیر داخلہ بسوراج بومئی نے بھی پولیس فائرنگ میں دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

مذکورہ ایم ایل اے کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں مسلمانوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی گئی ہے اور انھیں یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور اس معاملے میں کارروائی کی جائے گی۔

ایم ایل اے نے ویڈیو میں کہا: ‘جو بھی معاملہ ہو ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں انھیں صحیح سزا ملے۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں۔ میری گذارش ہے کہ آپ امن قائم رکھیں۔’

کرناٹک کے وزیر داخلہ نے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ‘آتشزدگی اور تشدد قانون کے خلاف ہیں۔ جو بھی معاملہ ہے اسے قانون کے دائرے میں ہی حل کرنا ہوگا۔ میں نے پولیس کو امن کی بحالی کا حکم دیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کتنے ہی بڑے شخص ہوں، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سخت کارروائی کی جائے۔ جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اسے سخت سزا دی جائے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔’

کرناٹک کے امیر شریعت مولانا صغیر احمد نے بھی مسلمانوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے کیونکہ پولیس نے وعدہ کیا ہے کہ جس نے بھی یہ قابل اعتراض حرکت کی ہے اسے سزا دی جائے گی۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، حکومت کارروائی کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں