بلوچستان میں یوم آزادی منانے کا منفرد انداز، خواتین نے قومی پرچموں کے اسٹال سجا لئے

کوئٹہ (رپورٹ: ابرار احمد) بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی سڑکوں پر امسال جشن آزادی کے سلسلے میں ایک دلچسپ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے شہر کی مختلف سڑکوں خصوصاً سورش کے دوران حساس سمجھے جانے والے علاقوں بشمول سریاب روڈ پر مختلف خواتین ریڑھیوں میں قومی پرچم، مختلف ڈیزائن والے بیجز، اسٹیکرز فروخت کرتے نظر آرہی ہیں ایسا منظر اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا کیونکہ بلوچستان میں مزاحمتی تحریکوں کی وجہ سے اگست کا مہینہ ہمیشہ سے بھاری گزرا ہے 2006 میں اسی ماہ میں بزرگ سیاستدان و معتبر شخصیت نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا جسکے بعد سے تو جیسے پاکستان کا نام لینا بھی جرم بن گیا تھا بہرحال ماضی کی بنسبت حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں 2013 تک تو سڑکوں پر سرعام قومی پرچموں کی فروخت ناممکن ہی تھی بس ایک علاقہ مخصوص تھا جہاں سے قومی پرچم، بیجز وغیرہ خریدے جاسکتے تھے مگر اسکے بعد حالات نے واپس کروٹ بدلی اور آہستہ آہستہ سے ہر سال حالات میں تبدیلی رونما ہونی شروع ہوئی شکر الحمد للہ آج حالات ایسے ہیں کہ شہر کے نواحی علاقوں بلکہ کوئٹہ شہر سے باہر بھی خواتین کو ریڑھیوں میں قومی پرچم فروخت کرتے پایا جبکہ اس کے علاوہ صوبے کے چند آدھ علاقوں کے علاوہ تمام شہروں دیہاتوں میں صورتحال ماضی کی جانب لوٹ رہی ہے اور عوام بلا خوف اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرتے ملتے ہیں۔

مختارا بیگم 40 سالہ خاتون جوکہ خود کو رحیم یار خان پنجاب کی رہائشی بتاتی ہیں نے کہ وہ ہر سال فیملی کے ساتھ کوئٹہ آتی ہیں گرمیوں میں اور چونکہ کوئی وسیلہ روزگار نہیں تو وہ ہر سال کوئی نہ کوئی عارضی کام کرتی ہیں تاکہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پال سکیں مختارا بیگم سمنگلی روڈ پر ریڑھی میں یکم اگست سے قومی پرچم، بیجز و دیگر اسٹیکرز فروخت کررہی ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ امسال انہیں یہ کام کرنے کی سوچا جسکے لئے انکی جھونپڑی جہاں رہائش پذیر ہیں کے پاس ہی ایک مخیر شخص نے تعاون کیا اور اس سے ادھار پیسے لیکر انہوں نے ریڑھی و دیگر سامان خریدہ انکے بقول انہیں اچھا منافع مل رہا ہے چونکہ اس بار ماضی کی بنسبت لوگوں کی دلچسپی بھی زیادہ ہے اور وہ قومی پرچموں کی خریداری کے دوران پرجوش نظر آتے ہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کئی لوگ خاتون ہونے کے ناطے انکی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور زائد قیمت پر خریداری بھی کرتے ہیں۔

کلثوم (فرضی نام) 27 سالہ کلثوم سمنگلی روڈ پر ہی قائم معروف فوڈ پوائنٹس کے ساتھ ہی ریڑھی میں یہ سب فروخت کرتی ملی پہلے تو بات نہیں کررہی تھی شاید حالات ایسے ہیں کہ ایک جوان عمر خاتون سے ایسے بلا جھجک بات کرنا پھر اسکے ساتھ ہی موجود ایک بارہ تیرا سالہ لڑکے سے بات کرنے کے بعد کلثوم نے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں ہی رہائش پذیر ہیں اور وہ بھی جھونپڑیوں میں رہتی ہیں چونکہ شوہر کا مستقل روزگار نہیں تو امسال، انہوں نے بھی دیگر خواتین کے دیکھا دیکھی ریڑھی پر قومی پرچم فروخت کرنے کا سوچا شروع میں تو کافی مشکلات رہیں کیونکہ سارا دن دھوپ بارش میں عورت ذات ہوتے گھومنا تھوڑا مشکل لگا مگر بعد میں میرے بیٹے نے ہمت بڑھائی اور ہم دونوں روز صبح ایسے ہی نکلتے ہیں اور سارا دن کبھی کسی سڑک کبھی کسی گلی میں جاکر پرچم و دیگر اشیاء فروخت کرتے ہیں شکر ہے بھائی بس گزرا ہو رہا ہے مگر لڑکے تنگ بھی بہت کرتے ہیں کلثوم نے افسوس کا اظہار کرتے بتایا کہ پنجاب کراچی کی بنسبت یہاں ایسا ماحول نہیں ہے نا شاید تبھی۔

میں یہاں سیشن کورٹ کے باہر بھیک مانگتی ہوں وکیل بھائی بہت تعاون کرتے ہیں بس گزارا ہو جاتا ہے کئی سال سے ہوں یہاں اب تو وکیل بھی پہچاننے لگے ہیں لیاقت پارک کے ایک کونے پر اسٹال لگائے (ش) نے بتایا کہ وہ ہیں تو کوئٹہ کی رہائشی مگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر سردیوں میں پنجاب چلی جاتی ہے ش نے مزید بتایا کہ ایک وکیل نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ چودہ اگست آرہی ہیں آپ یہاں اسٹال لگا لو اچھا یے شہر میں دیگر خواتین بھی ریڑھیوں پر پرچم فروخت کررہی ہیں جسکے بعد اس نے اپنے شوہر سے مشورہ کرکے یہاں اسٹال لگانے کا فیصلہ کیا شکر ہے کافی اچھا کام چل رہا ہے مگر بس اداس ہو جاتی ہوں کہ چودہ اگست کے بعد مجھ سے کون سامان خریدے گا؟؟ کاش یہ کام سارا سال چلے کچھ ہم غریبوں کا بھی بھلا ہو جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں