متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدہ

یروشلم (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کو اپنے ایک ٹی وی خطاب میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ امن معاہدے کا اعلان کیا

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جمعرات کو ہونے والے معاہدے کو مختلف حلقوں کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔

اس معاہدے میں کن باتوں پر اتفاق ہوا ہے؟

آنے والے ہفتوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری، سیاحت، براہِ راست پروازوں، سلامتی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات، سفارت خانوں کے قیام، اور باہمی فائدے کے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مشرقِ وسطیٰ کے دو سب سے متحرک معاشروں اور جدید معیشتوں کے درمیان براہِ راست تعلقات کے قائم ہونے سے معاشی ترقی ہو گی، ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات ہوں گی اور عوام کے آپس میں تعلقات بہتر ہوں گے جس سے خطہ بدل جائے گا۔

اس کے علاوہ اسرائیل صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے ’ویژن فار پیس‘ میں متعین کردہ علاقوں پر اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرنا بھی روک دے گا۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ اس منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں اور سٹریٹجک اعتبار سے اہم وادی اردن کے اسرائیل میں انضمام کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں۔

فلسطینیوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام ان کی آزاد ریاست کی امیدیں ختم کر دے گا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگا۔

اسرائیل کے زیرِ انتظام غرب اردن کے شہر ہیبرون میں فلسطینی شہری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

عالمی برادری فلسطین کے اس مؤقف کی اکثریتی طور پر حمایت کرتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ’ایک بہت جراتمندانہ اقدام تھا‘ تاکہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن کے انضمام کے ’ٹائم بم‘ کو روکا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اسے ’انضمام کی معطلی کے بجائے اس کا رُک جانا تصور کرتا ہے۔‘

جب ان سے متحدہ عرب امارات کے اقدام پر فلسطینی تنقید کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ خطے میں اس حوالے سے مؤقف بہت سخت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ’معمول کا شور‘ سننے کی امید تھی۔ ’ہمیں اس پر غصہ آتا تھا لیکن پھر ہم نے سوچا کہ چلو کر ہی ڈالتے ہیں۔‘

مشترکہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ’اب دیگر عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات وسیع کرنے پر غور کرے گا‘ اور متحدہ عرب امارات اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کریں گے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک سٹریٹجک ایجنڈا‘ لانچ کرنے کے لیے بھی امریکہ کے ساتھ کام کریں گے۔ تینوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ’خطے میں خطرات اور مواقع کے بارے میں مشترکہ نظریہ رکھتے ہیں، اور سفارتی تعلقات، زیادہ معاشی تعاون اور قریبی دفاعی تعلقات کے ذریعے استحکام کو فروغ دینے کا بھی مشترکہ عزم رکھتے ہیں۔‘

فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ معاہدہ ’غداری‘ ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات فلسطین سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا رہا ہے۔

مکمل سفارتی تعلقات اور سفارتخانوں کا قیام، اور اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی تعلقات کا معمول پر آنا ایک اہم سفارتی قدم ہے۔ مگر اس سے لامحالہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد ہو سکے گا؟ اور کیا دیگر خلیجی ممالک بھی ایسا ہی راستہ اپنائیں گے؟

یہ نظر میں رکھنا بھی اہم ہے کہ اس معاہدے میں کیا شامل نہیں ہے۔ یہ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے اس جامع امن منصوبے سے بہت دور ہے جس پر صدر ٹرمپ بار بار زور دیتے رہے ہیں۔

تاہم اس معاہدے میں تمام فریقوں کے لیے مختصر مدتی فوائد موجود ہیں۔

وائٹ ہاؤس اس معاہدے کا اعلان کرنے والا سب سے پہلا فریق تھا۔ اب جبکہ ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات مشکل نظر آ رہے ہیں، تو ایسے وقت میں یہ معاہدہ ان کے لیے ایک چھوٹی سی ہی سہی، مگر کامیابی ضرور ہے۔

مبینہ کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو یہ اپنی پیدا کی گئی مشکل سے نجات دلاتا ہے، یعنی مقبوضہ غرب اردن کے حصوں کے اسرائیل میں انضمام کا وعدہ۔ یہ وعدہ اب تک ناقابلِ عمل ثابت ہوا ہے اور اس میں امریکی نیم دلانہ مؤقف اور زبردست بین الاقوامی مخالفت بھی شامل ہے۔

نیتن یاہو کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ ‘امن اقدام’ ان کے لیے اسرائیلی عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اسے اس معاہدے سے فوری طور پر کیا فوائد حاصل ہوں گے، مگر اس کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات ضرور بہتر ہوں گے، اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے سے اسے معاشی، دفاعی اور سائنسی میدانوں میں خاصہ فائدہ ہوگا۔

مجموعی طور پر یہ معاہدہ پہلی نظر کے مقابلے میں بیک وقت کم اور زیادہ فوائد فراہم کر سکتا ہے۔ اور جہاں تک فلسطینیوں کی بات ہے تو اس خبر سے ان کے لیے بے چینی کے علاوہ اور کچھ نتیجہ نکلنا مشکل ہے کیونکہ انھیں ایک مرتبہ پھر کنارے سے لگا دیا گیا ہے۔

کیا یہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی فتح ہے؟

دوسری جانب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’اب چونکہ برف پگھل چکی ہے تو مجھے امید ہے کہ مزید عرب اور مسلم ممالک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔‘

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آنے والے چند ہفتوں میں وائٹ ہاؤس میں معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد کی جائے گی۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ انھوں نے غربِ اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے منصوبوں کو ’ملتوی‘ کر دیا ہے تاہم یہ منصوبے ابھی بھی ’زیرِ غور‘ ہیں۔

ان منصوبوں پر عملدرآمد سے غربِ اردن باضابطہ طور پر اسرائیل کا حصہ بن جائے گا۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا ’امریکہ سے ہم آہنگی کے ساتھ جوڈیا اور سماریا کے علاقوں پر ہماری خود مختاری قائم کرنے کے میرے منصوبوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ میں اس حوالے سے پرعزم ہوں اور اس میں کچھ بدلا نہیں ہے۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میں نے ہی ان علاقوں پر خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ یہ مسائل ابھی بھی میز پر موجود ہیں۔‘

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری، توانائی، پانی، ماحولیاتی تحفظ اور کئی دیگر شعبوں میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعاون کرے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے خارجہ پالیسی کی فتح ہو سکتی ہے جو نومبر میں دوبارہ انتخابات لڑیں گے۔

اس سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی شخصیت کو بھی تقویت ملے گی جو مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں۔

دونوں ہی رہنماؤں کی مقبولیت میں کورونا وائرس پر اپنے ردِ عمل کی وجہ سے کمی ہوئی ہے۔ اور اسرائیل میں دائیں بازو کے وہ لوگ جو غرب اردن کا اسرائیل میں انضمام چاہتے ہیں، انھوں نے اس اعلان پر غصے کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ یہ معاہدہ ’سفارتکاری اور پورے خطے کے لیے جیت‘ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ عرب اسرائیل تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہے جس سے تناؤ میں کمی ہو گی اور مثبت تبدیلی کے لیے ایک نئی توانائی پیدا ہو گی۔‘

اب تک اسرائیل اور خیلج کے عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں تھے۔

دونوں ملکوں میں ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کی وجہ سے غیر رسمی رابطے تھے۔

صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے جواب میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹویٹ کی ’تاریخی دن‘۔

اس حوالے سے دیگر رہنماؤں کا کیا ردِعمل ہے؟

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ ’مجھے بڑی امید تھی کہ غرب اردن کا اسرائیل میں انضمام نہ ہو، اور آج ان منصوبوں کی معطلی پر اتفاق ایک زیادہ پرامن مشرقِ وسطیٰ کی جانب ایک خوش آئند قدم ہے۔‘

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی اس منصوبے کا خیر مقدم کیا جبکہ اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن سفادی نے کہا کہ اس معاہدے سے تعطل کے شکار امن مذاکرات آگے بڑھ سکیں گے۔

مگر ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار حنان اشراوی نے اس معاہدے کی مذمت کی اور کہا کہ متحدہ عرب امارات ’اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدوں اور تعلقات کی بحالی کے بارے میں اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔‘ انھوں نے شہزادہ محمد سے کہا ’کاش آپ کے دوست کبھی آپ کا سودا نہ کریں۔‘

ایران کے پاسدارانِ انقلاب سے منسلک خبر رساں ادارے تسنیم نے اس معاہدے کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔ دوسری جانب غزہ میں عسکریت پسند گروہ حماس نے اس معاہدے کو ’اپنے لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا قرار دیا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں