نواز شریف کی تقریر میں فوجی قیادت کا نام سن کر دھچکا لگا، بلاول بھٹو زرداری

گلگت بلتستان (ڈیلی اردو) پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ گوجرنوالہ جلسے میں فوجی قیادت کا نام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا، تقریب میں براہ راست نام سنے تو دھچکا لگا، انتظار ہے کہ وہ کب ثبوت پیش کریں گے، عمران خان کو حکومت میں لانے کی ذمہ داری کسی شخص پر نہیں ڈالی جا سکتی، اے پی سی میں فیصلہ ہوا تھا انتخابات میں دھاندلی کا الزام صرف ایک ادارے پر بلکہ پوری اسٹیبلیشمنٹ پر لگانا چاہئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے کی تیاری کے وقت ن لیگ نے جنرل باجوہ یا جنرل فیض کا نام نہیں لیا تھا، اے پی سی میں یہ بحث ہوئی تھی کہ الزام صرف ایک ادارے پر لگانا چاہئے یا پوری اسٹیبلیشمنٹ پر لگانا چاہئے جس پر فیصلہ ہوا تھا کہ نام اسٹیبلشمنٹ کا لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جلسے میں فوجی قیادت کا نام لینا نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا اور انتظار ہے کہ وہ کب ثبوت پیش کریں گے لیکن نواز شریف کی تقریر میں جب براہ راست نام سنے تو انھیں دھچکا لگا کیونکہ عام طور پر ہم جلسوں میں اس طرح کی بات نہیں کرتے اور ہمارا ایجنڈا ہماری آل پارٹیز کانفرنس میں طے پانے والی قرارداد میں واضح ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ڈی ایم یہ نہیں چاہتی کہ فوجی قیادت عہدے سے دستبردار ۔ ہو جائے، یہ نہ تو ہماری قرارداد میں مطالبہ ہے نہ ہی یہ ہماری پوزیشن ہے، جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ تین باروزیر اعظم رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر نام نہیں لیے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اپنی جماعت ہے اور میں یہ کنٹرول نہیں کر سکتا کہ وہ کیسے بات کرتے ہیں، کورونا وائرس کے باعث نواز شریف سے براہ راست ملاقات کا موقع نہیں ملا، نواز شریف سے ملاقات ضروری ہے تا کہ معاملے پر تفصیل سے بات کروں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اداروں کو اپنی ٹائیگر فورس کے طور پر استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے ادارے بدنام ہوتے ہیں، اگر عمران خان کے الیکشن میں کسی بھی وجہ سے فوج کو پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر کھڑا کیا جائے تو دھاندلی نہ بھی ہو تب بھی وہ متنازع بنیں گے۔ اگر عمران خان اپنے مخالفین کے جلسے کے بعد یہ باتیں کریں گے تو پھر وہ مزید متنازع بنیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر ادارہ اپنا کام کرے، میں اور میری جماعت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایجنڈے اور قرارداد کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں، ملک جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس میں دو ہی راستے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم انتہا پسندانہ رویہ اختیار کریں اور ملک کو مزید مشکلات سے دوچار کر لیں جبکہ دوسرا یہ کہ ہم رکیں اور سوچیں کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ترقی پسند جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جبکہ کمزور جمہوریت آمریت سے کئی درجے بہتر ہے،میری جماعت نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ جمہوری انداز میں مقصد حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔

گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشنز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں بہت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے اور ان لوگوں نے بھی ان سے ملاقات کی جو ان کے نانا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بینظیر بھٹو سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں