کراچی: 5 سال سے لاپتہ متحدہ کارکن شاہد کلیم کی تشدد شدہ لاش برآمد

کراچی (ڈیلی اردو) پانچ سال سے لاپتا لیاقت آباد کے رہائشی متحدہ کارکن شاہد کلیم کی سرجانی ٹاؤن سے تشدد زدہ لاش ملی، شاہد 2016ء میں ٹیلی فون کال پر گھر سے نکلا تھا اور کبھی واپس نہ آیا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن سے ایک لاش ملی ہے جس کی شناخت لیاقت آباد کے رہائشی شاہد کلیم کے نام سے ہوئی جو کہ ایم کیو ایم کا کارکن تھا اور چار سال قبل لاپتا ہوگیا تھا۔

اہل خانہ کے مطابق شاہد کلیم موبائل فون کی رپیئرنگ کا کام کرتا تھا، 9 دسمبر 2016ء کو وہ گھر میں موجود تھا کہ ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی وہ باہر گیا اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آیا۔ شاہد نے پسماندگان میں بیوہ اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہے۔

شاہد کی اہلیہ عالیہ نے اس سلسلے میں پولیس و قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو آگاہ بھی کیا جبکہ گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کرائی، 13 اپریل 2019ء کو سپر مارکیٹ تھانے میں عالیہ کی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر 78/2019 بجرم دفعہ 365/34 کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا، ایف آئی آر میں بھی اس کی گمشدگی کی تاریخ 9 دسمبر 2016ء درج ہے۔

اہل خانہ نے مزید بتایا کہ شاہد 1991ء میں لانڈھی میں رونما ہونے والے میجر کلیم کیس میں بھی نامزد تھا۔ لاش کی اطلاع پر وہ عباسی شہید ہسپتال پہنچے تو شاہد کلیم کی لاش پر تشدد کے نشانات تھے۔

شاہد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، تحقیقات کی جائیں، متحدہ قومی موومنٹ

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ لیاقت آباد ٹاؤن کے کارکن شاہد کلیم کو 8 دسمبر 2016ء کو گرفتار کیا گیا اور آج تقریبا پانچ سال کے بعد ان کی لاش سرجانی ٹاؤن کے علاقے سے برآمد ہوئی، 5 سال تک شاہد کلیم کے خلاف نہ تو کوئی عدالتی کارروائی ہوئی اور نہ ہی انھیں عدالت میں پیش کیا گیا اور آج تشدد کے ذریعے انھیں ماورائے آئین اور قانون قتل کیا گیا۔

ایم کیو ایم پاکستان نے کہا ہے کہ آج ہم آئین اور قانون کی بالادستی کی بات تو کرتے ہے لیکن شاہد کلیم کا قتل حکومتوں کے دعوے کے برخلاف ہے، پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہر شہری کو جزا اور سزا کے لیے صاف اور شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے شاہد کلیم کے سوگوار سے دلی تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ شاہد کی گرفتاری سے لے کر ماورائے عدالت قتل کے واقعے کی اعلی سطح پر عدالتی تحقیقات کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں