ایران: حکومت کیخلاف احتجاج پر اکسانے کے الزام میں صحافی روح اللہ زام کو پھانسی دے دی

تہران (ڈیلی اردو) ایران نے روح اللہ زام کو ملک میں تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں سنیچر کو سزائے موت دی

ایران نے ملک میں مخالفت اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے ایک مسیجنگ ایپ استعمال کرنے کے الزام میں ایک صحافی کو سزائے موت دے دی ہے۔

ایران کی سرکاری ٹی وی کے مطابق ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھے جانے کے بعد روح اللہ زام نامی صحافی کو سنیچر کو پھانسی کی سزا دی گئی۔

تاہم اس متعلق واضح نہیں ہے کہ صحافی زام جو فرانس میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے تھے کیسے گرفتار ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انھیں گذشتہ برس عراق کا دورے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

وہ ایک مقبول حکومت مخالف ‘آمد نیوز’ کی ویب سائٹ چلاتے تھے۔

ایران نے آمد نیوز نامی ویب سائٹ پر سنہ 2017-18 میں ملک گیر مظاہروں کو ہوا دینے اور عوام کو احتجاج پر اکسانے کا الزام عائد کیا تھا۔

اس نیٹ ورک، جس کے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر دس لاکھ سے زائد فالورز ہیں نے مظاہروں کی ویڈیوز اور ایرانی حکام کے متعلق ایسے اطلاعات شیئر کی تھی جو حکومت کے لیے نقصان دہ تھی۔

اس ویب سائٹ کو ایرانی حکومت کی جانب سے بند کر دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں یہ ایک دوسری نام سے شروع ہو گئی تھی۔

ایران کے روشن خیال مذہبی رہنما محمد علی زام کے بیٹے روح اللہ زام کو رواں برس کے آغاز میں ملک کے سب سے سنگین جرائم میں سے ایک کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

البتہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ‘وہ ایک جبری اعتراف جرم پر بنے مقدمے کا شکار تھے۔’

عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں ہفتے فرانسیسی وزرات خارجہ نے روح اللہ زام کی سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے کو ‘ایران میں آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر سنگین حملہ’ قرار دیا تھا۔

ایرانی صحافی روح اللہ زام کو فرانس میں سیاسی پناہ حاصل تھی، وہ سنہ 2009 میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد ایران میں قید رہے تھے۔

ایران کے پاسداران انقلاب نے پہلے کہا تھا کہ انھوں نے ‘جدید انٹلیجنس طریقوں اور جدید حکمت عملی’ کا استعمال کیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ غیر ملکی ایجسنیوں کو ‘جھانسہ’ دینے اور روح اللہ زام کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ایران کے پاسداران انقلاب نے زام پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فرانس، اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے ‘زیر سایہ’ ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق وہ اس کے بعد ٹی وی پر آئے تھے اور انھوں نے اپنی سرگرمیوں پر معذرت بھی کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں