ضلع مہند میں ایف سی اہلکار جمیل حسین طوری کی ہلاکت

اسلام آباد (رپورٹ: احمد طوری) جمیل حسین طوری کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کردی گئی مگر جمیل حسین کی بیوہ اور والدہ بچوں کی کفالت اور سکول کے لئے کافی پریشان ہیں۔

جمیل حسین کا تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ کے قبائلی ضلع کرم کے شہر پارا چنار کے نواحی گاؤں جالندھر سے تھا جبکہ گوساڑ گاؤں میں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پزیر تھے۔

جمیل حسین طوری کے والد منظر علی طوری غربینہ میں ۱۹۸۷ جنگ میں افغان جہادیوں سمیت مقامی لشکر کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔

قبائلی ضلع مہمند میں پاک افغان بارڈر پر تین چیک پوسٹ نہایت خطرناک علاقے میں بنائے گئے ہیں جہاں افغان آرمی اور مقامی قبائل جس میں طالبان کا عنصر شامل ہے، وقتاً فوقتاً ان چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے جہاں پانچ منٹ کیلئے کوئی اہلکار نظر آئے تو سنائپر سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایف سی کے دو درجن کے لگ بھگ اہلکار ہر چیک پوسٹ پر تعینات رہتے ہیں جو جدید اسلحہ اور جنگی ساز و سامان سے لیس ہوتے ہیں۔

جمیل حسین کے ایک قریبی دوست سید حسن نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتے ان تین چیک پوسٹوں میں سے ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تو پاک افواج کے جوانوں نے بھرپور جواب دیا اور سرحد پار سے حملہ آوروں میں سے درجن بھر دہشت گرد ہلاک و زخمی ہوئے اور حملہ پسپا کردیا گیا، ایف سی کے بھی کئی اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے، اس بہادری پر پر ایف سی کے ان اہلکار ہیڈ کوارٹر وارسک بلائے گئے جہاں ان کو نقد انعامات اور ترقی دے دی گئیں اور ان میں سے ایک جوان جمیل حسین طوری بھی تھے جن کو مبلغ دس ہزار نقد انعام لانس نائک سے نائیک رینک میں ترقی دے دی گئی۔

وارسک میں انعام اور ترقی دینے کے بعد جمیل حسین کو وننگ کمانڈر نے واپس اپنی چیک پوسٹ پر بلایا جہاں پر دہشتگردوں سے مقابلہ ہوا تھا اور وہاں بطور نائیک کمانڈر تعینات ہوئے اور تیسرے روز چیک پوسٹ میں ہی سنائپر سے نشانہ بنایا گیا اور شدید زخمی ہوگئے، زخمی ہونے کے بعد مہمند ضلعی ہسپتال پہنچانے میں کافی دیر ہوئی اور کافی خون بہنے کی وجہ سے حالت بگڑ گئی تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ پشاور منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جمیل حسین راستے میں دم توڑ گئے۔

جمیل حسین کے چار چھوٹے بچے ہیں اور اکمل حسین سب سے بڑے بیٹے ہیں جنہوں والد کا سامان اور کیپ وصول کیا۔ جمیل حسین کے کوئی بھائی نہیں گھر میں ایک ماں اور ایک بہن رہ گئے ہیں، بچوں کے سکول اور اور والدہ کے لئے ایف سی نے فیصلہ کیا ہے کہ شہید کی تنخواہ جاری رہے گی۔

اب ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس پر پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان میں پشتون (پختون) قبائل کا ضلع کرم کے طوری بنگش قبائل کے ساتھ قبائلی اور مذہبی (مسلکی) مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چونکہ ضلع کرم کے طوری قبیلہ مکمل طور پر شیعہ اور بنگش و کچھ دیگر قبائل کا تعلق اہل تشیع مکتبہ فکر سے ہے لہذا ان قبائل کے جوانوں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاتا رہا ہے جس کی مثالیں وزیرستان میں لائق حسین کو ذبح کرنا ہے جبکہ باقی سارے ایف اہلکاروں کو چھوڑ دیاگیا تھا۔ اور ضلع مہمند کے مہمند رائفلز کے سپاہی نور حسین کی ٹارگٹ کلنگ ہے جس کو کچھ مہینوں پہلے اپنے ساتھیوں نے فائرنگ کر کے قتل کیا ہے۔

لہذا جمیل حسین کے رشتہ داروں نے (جمیل حسین کے دوست کے مطابق جنہوں مجھ سے بات کی ہے) اس خدشے کا اظہار بھی اظہار کیا ہے کہ جمیل حسین کے ہلاکت کی تحقیقات میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے۔

جمیل حسین کی لاش تو آبائی گاؤں گوساڑ کے قبرستان میں پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کردی گئی مگر مقتول جمیل حسین کی بیوہ اور والدہ بچوں کی کفالت اور سکول کے لئے کافی پریشان ہیں۔ پاک افواج اور ایف سی کے اعلی حکام خاندان کی مدد کے کئے فی الحال تو تیار ہیں لیکن ماضی اتنا شاندار نہیں ہے۔کیونکہ وزیرستان میں طالبان کے ہاتھوں ذبح شدہ لائق حسین کے والدین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بیماری کے لئے عوام سے چندے کی اپیل کرتے نظر آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاک افواج اور ایف سی کی اعلی سطحی قیادت اس کمزوری کا نوٹس لے گی اور جمیل حسین و دیگر خاندانوں کا سہارا بنے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں