شمالی کوریا کے بیلسٹک میزائل کے دو تجربات

پیانگ یینگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکا اور جاپان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے بحیرہِ جاپان میں دو بلیسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شمالی کوریا نے ایسا تجربہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق شمالی کوریا پر بلیسٹک میزائلوں کے تجربے کرنے کی پابندی ہے۔

جاپان اور جنوبی کوریا دونوں نے ان ٹیسٹوں کی مذمت کی ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل شمالی کوریا نے دو غیر بلیسٹک میزائلوں کو بھی جاپان کے قریب سمندر میں داغا تھا تاہم جاپان کا کہنا ہے کہ میزائلوں کے کوئی ٹکرے اس کی آبی حدود میں نہیں گرے تھے۔

ایشیا پیسفک خطے میں میں سییورٹی فورسز کی نگرانی کرنے والے امریکی پیسفک کمانڈ نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ان ٹیسٹوں سے ‘شمالی کوریا کے غیر قانونی ہتھیاروں کے پروگرام سے ہمسایہ ممالک کو لاحق خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘

صدر بائیڈن نے ان تجربوں پر اب تک سرکاری طور پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

منگل کے روز صدر بائیڈن نے غیر بلیسٹک میزائلوں کی اہمیت کو کم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اس اقدام کو جارحانہ تصور نہیں کرتا۔

کم فاصلوں تک مارک کرنے والے ان میزائلوں پر اقوام متحدہ نے پابندی عائد نہیں کی۔

جمعرات کے ٹیسٹ ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں جب ملائیشیا سے امریکہ لائے گئے پہلے شمالی کوریائی ملزم من چول یونگ امریکہ پہنچے ہیں۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے امریکہ کے مالیاتی نظام سے منی لنڈرنگ کر کے شمالی کوریا میں پرتعیش اشیا پہنچائیں۔

اس واقعے کے بعد شمالی کوریا نے ملائیشیا کے ساتھ سفارتی روابط منقطع کر دیے ہیں۔

تجزئیہ: لورا بیکر، سیؤل

یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے زیادہ اہم موقع ہے۔

اختتامِ ہفتہ پر آرٹلری یا کروز میزائلوں کے ٹیسٹوں کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر بلیسٹک میزائل کا تجربہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔

مگر یاد رہے کہ صدر بائیڈن کے پیشرو صدر ٹرمھ نے ایسے ہی تجربوں پر 2019 میں کوئی سوال نہیں پوچھے تھے۔

سنگاپور میں 2018 میں صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ شمالی کوریا کوئی بڑی رینج کے بلیسٹک میزائل یا جوہری ہتھیاروں کے تجربے نہیں کرے گا۔

اس وقت وائٹ ہاؤس چھوٹے تجربات پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔

مگر صدر بائیڈن کی ٹیم ابھی ابھی جاپان اور جنوبی کوریا میں یہ کہہ کر واپس آئی ہے کہ ‘امریکہ اب واپس آ گیا ہے‘ اور اپنے اتحادیوں کی حمایت کرے گا۔

اسی لیے شاید امریکی انتظامیہ کو ایک ایسے ٹیسٹ کے بارے میں کچھ تو کہنا پڑے گا جو اس کے شمالی مشرقی ایشیا میں اتحادیوں کے لیے خطرہ ہے۔

واشنگٹن کو معلوم تھا کہ شمالی کوریا کے پاس دیگر بڑے ہتھیار بھی ہیں جو کہ اس نے سنہ 2017 کے بعد سے ٹیسٹ نہیں کیے ہیں۔

شمالی کوریا نے ایک سال سے زیادہ عرصہ تنہائی میں گزارا۔ اس نے اپنے قریبی ترین ساتھی چین کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی معیشت انتہائی برے حال میں ہے۔

اب جب میزائل تجربے واپس منظرِ عام پر آنے لگے ہیں تو کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کم جونگ ان امریکہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ آخری مرتبہ شمالی کوریا نے بلیسٹک میزائلوں کے تجربے ایک سال قبل کیے تھے جب صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔

بائیڈن انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ انھیں شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی رابطہ قائم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔

شمالی کوریا نے اب تک صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کو تسلیم نہیں کیا ہے اور دونوں ممالک شمالی کوریا کے جوہری اور بلیسٹک پرواگرام کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالفین ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں