سندھ کے معروف روحانی پیشوا عبدالحق میاں مٹھو نے 85 سال کی عمر میں دوسری شادی کرلی

گھوٹکی (مانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کے سابق رکن قومی اسمبلی عبدالحق عرف میاں مٹھو نے 85 سال کی عمر میں دوسری شادی کرلی۔

عبدالحق عرف میاں مٹھو کے خاندانی ذرائع نے شادی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میاں مٹھو نے جام عبدالستار ڈہر کی صاحبزادی سے شادی کی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالحق میاں مٹھو کی دوسری اہلیہ کی عمر 45 سال سےزائد اور بیوہ ہے۔

گھوٹکی میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے یا کسی ہندو لڑکی کے تبدیلی مذہب کا مسئلا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ میاں مٹھو کو گرفتار کیا جائے۔

اگر گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی کہانیاں اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ساری کہانیاں ایک دکھائی دیں گی۔

وہی ہزاروں کے ہجوم، تکبیر کے نعرے، کلاشنکوف اور جدید خود کارہتھیاروں کی فائرنگ، بھرچونڈی کے پیر کے ہاتھ میں ڈنڈا اور مذہب تبدیل کرنے کی تقریب کا وقوع پذیر ہونا۔

بھرچونڈی، مٹیاری اور امروٹ درگاہیں، رضاکارانہ یا جبری سے قطع نظر، تاریخی طور پر تبدیلیِ مذہب کے بڑے مرکز رہے ہیں۔ جب کہ آج بھی بھرچونڈی، امروٹ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور کراچي اور تھرپارکر میں سامارو، سندھ میں ایسے مذہب تبدیل کرنے کے ایسے مراکز بتائے جاتے ہیں، جہاں ہر ماہ متعدد ہندو لڑکیوں کے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔

اگر آپ گھوٹکی ضلع سندھ میں رہتے ہیں، اگر آپ کو زمین یا پلاٹ پر سے قبضہ چھڑوانا ہے، قبضہ کروانا ہے، اگر کسی نے کسی ہندو لڑکے یا لڑکی کا ‘مذہب تبدیل’ کروانا ہے تو آپ بھرچونڈی کے پیروں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ جو کراچی میں تو‘نو گو ایریاز’ اب بنے ہیں، شمالی سندھ میں بھرچونڈی تب سے ‘نو گو ایریا’ ہے، جب یہ لفظ میڈیائی استعمال میں اتنا نہیں آیا تھا جتنا اب ہے۔ بھرچونڈی عام شہریوں یا پولیس انتظامیہ کے لیے ‘علاقہ غیر’ ہے۔

اسی بھرچونڈی کے ایک پیر عبد الحق عرف میاں مٹھو پی پی پی کے ایم این اے منتخب ہوتے آئے ہیں، میاں مٹھو جو گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے بیٹوں سمیت ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کے بانی رہے ہیں۔ رنکل کماری کے اغوا اور پھر مذہب تبدیل کرنے اُس واقعے کی مبینہ سرپرستی میں بھی انہی کا نام لیا جاتا ہے، جس کی وڈیوز اب وبائی جرثوموں کی طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئیں ہیں۔

مارچ 2012 کو میرپور ماتھیلو کے صوفی محلے میں ایک نوجوان ہندو لڑکی رنکل کماری اس وقت اپنے گھر سے غائب ہوگئی جب اس کے گھر والے گھر سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔

انیس سالہ رنکل کماری کے ماموں ڈاکٹر پون کمار نے ٹیلیفون پر میرپور ماتھیلو سے میڈیا کو بتایا کہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ جب وہ ساری رات گھر نہیں آئي تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس نے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے جا کر شادی کرلی ہے لیکن ہم نے سوچا کم از کم اسے اپنے والدین سے تو ملایا جائے گا اور اس کے والدین یہ جاننا چاہیں گے۔

دوسرے روز اسے گھوٹکی سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں کمرۂ عدالت میں وکلا اور عدالتی عملے کی موجودگی میں، رنکل کماری نے کہا کہ نوید شاہ اسے ورغلا کر، زبردستی اور دھوکے سے میاں مٹھو کے ہاں لایا ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے لیکن جج نے لڑکی کا یہ بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

دو دن بعد ہزاروں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ، جن میں بہت سے مسلح بھی تھے، رنکل کماری پھر عدالت میں پیش کی گئی، جہاں اس کے وکیل اور کیس کے فریادی کے کسی کو بھی اس سے نہیں ملنے دیا گیا۔

تاریخ میں پہلی بار، دفعہ ایک سو چونسٹھ کا بیان کمرہ عدالت کے اندر سینکڑوں افراد اور باہر ہتھیاربند جتھوں اور نعرہ زن ہجوم کی موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا۔

تقسیم کے فسادات کے دوران بھی سندھ سے ہندو برادری نے ہندوستان کے لیے اتنی تعداد میں نقل مکانی نہیں کی تھی جتنی اپنی لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی وجہ سے کی ہے یا کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ان کے موقف کو شایع، نشر یا بیان نہیں کرتا۔ ایک ان کہی اور غیر مصدقہ کہانی تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران سندھ میں ایک سو کے قریب نوجوان ہندو لڑکیوں نے جبراً تبدیلیِ مذہب اور اپنے اور والدین کے دہشت زدہ کیے جانے سے دل برداشتہ ہوکر خود کشیاں کی ہیں۔

آخر میاں مٹھو کون ہیں؟

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے 119 کلومیٹر دور اور سندھ، پنجاب کی سرحد سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع گھوٹکی کا ایک شہر ہے بھرچُونڈی شریف، جو تاریخی درگاہ عالیہ بھرچُونڈی شریف کے نام سے منسوب ہے۔ یہ درگاہ دو سو سال پُرانی بتائی جاتی ہے۔ تحریک آزادی کے ہیرو اور امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی جو سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں ’چیانوالی‘ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے انھوں نے 1888 میں سولہ سال کی عمر میں اسی درگاہ عالیہ بھرچُونڈی شریف کے پیر حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈی کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ میاں مٹھو کا خاندان اس درگاہ کا متولی ہے۔

بھرچونڈی سندھی ذات کے سمہ خاندان کی مختلف گوت میں سے ایک ہے، جنہیں سمہ یا سمیجو بھی کہا جاتا ہے جو ایک سماٹ قبیلہ ہے۔ سندھ میں بلوچ نژاد سندھی اور سماٹ رہتے ہیں۔ اس خاندان کا تعلق سمیجو ذات کی جس شاخ سے ہے اسے بھرچونڈ کہا جاتا ہے۔ اس نسبت سے میان مٹھو کا خاندان بھرچُونڈی کہلاتا ہے۔

میاں مٹھو کا پورا نام میاں عبدالحق ہے اور ان کی عرفیت میاں مٹھو یا میاں مٹھا ہے۔ ان کے والد میاں عبدالرحمان عرف بھورل سائیں تقسیمِ ہند سے پہلے شمالی سندھ کے بااثر شخصیت سمجھے جاتے تھے اور اس وقت کی سندھ اسمبلی سے منسلک شمالی سندھ کے سیاستدانوں میں ان کا بڑا اثر تھا۔

ضلع گھوٹکی کے رہائشی، نامور تجزیہ نگار اور سندھ ٹی وی کراچی کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق ’میاں بھورل سائیں کا سندھ میں بڑا اثر تھا اور جب سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد پیش کرنے والے سیاستدان جی ایم سید نے قرارداد پاکستان کے لیے سیاستدانوں کو قائل کرنے کا ٹاسک میاں بھورل سائیں کو دیا تو انھوں نے وہ ٹاسک مکمل کیا اور اکثر سیاستدان ان کی وجہ سے قرارداد کی حمایت کرنے لگے تھے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب سکھر میں میں مندر- منزل گاھ کا مشہور واقعہ ہوا تھا، تب جی ایم سید نے مدد کے لیے میاں بھورل سائیں کو بلایا تھا اور ان کے بیٹے عبدالرحیم کو بعد میں مقامی ہندوؤں نے مارا پیٹا بھی تھا۔ جس کے بعد مشہور راگی کنور بھگت کو بھی قتل کیا گیا تھا۔‘

ان کے والد کی وفات پر جب ان کے سوتیلے بھائی میاں عبدالرحیم کو گدی نشین بنایا گیا تو میاں مٹھو نے شدید اعتراض کیا۔ بعد میں جب میاں عبدالرحیم قتل ہوگئے تو ان کے قتل کا الزام میاں مٹھو اور ان کے سگے بھائیوں پر لگا۔ جس کے بعد میاں مٹھو اپنے بھائیوں میاں اچھل اور میاں شمن کے ساتھ بھرچونڈی سے نقل مکانی کرکے ڈہرکی ریلوے سٹیشن کے پاس رہنے لگے۔ لوگ انھیں سٹیشن والے پیر کہا کرتے تھے۔ ان کو بھرچونڈی کی درگاہ پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔

بعد میں حروں کے روحانی پیشوا شاہ مردان شاہ عرف پیر پگاڑو نے سوتیلے بھائیوں میں صلح کرائی تب میاں مٹھو کو درگاہ جانے کی اجازت ملی۔

ان کے خاندان کا سیاست سے تعلق نہیں تھا مگر ضیا الحق دور میں ہونے والے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن میں میاں مٹھو نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوکر ڈہرکی کے ٹاؤن چیئرمین بن گئے۔ بعد میں جب بے نظیر بھٹو جلا وطنی سے واپس آئیں تو 1988 کے الیکشن میں گھوٹکی کے طاقتور مہر خاندان کے مقابلے میں انہوں نے پارٹی ٹکٹ میاں مٹھو کو دیا اور سیاسی اثر نہ ہونے کے باوجود میاں مٹھو نے شمالی سندھ کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے مہر خاندان کے مہشور نام غلام محمد خان مہر کو تاریخی شکست دی۔

میاں مٹھو پی پی پی سے وابستہ رہے مگر بینظیر بھٹو نے انھیں 1990 اور 1993 کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ 20 سال تک انہیں الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ بعد میں جب مہر خاندان ناراض ہوکر پرویز مشرف سے مل گیا اور 2002 میں علی محمد خان مہر کو وزیراعلی سندھ بنادیا گیا۔ 2008 کی الیکشن میں بینظیر بھٹو نے انھیں پارٹی ٹکٹ دیا کہ وہ پی پی پی سے ناراض رہنمائوں کی جانب سے بنائے گئے نئے گروپ پی پی پی پیٹریاٹ کے ٹکٹ ہولڈر سردار خالد احمد خان لُنڈ کے خالف الیکشن لڑیں اور اس الیکشن میں میان مٹھو نے خالد احمد کو شکست دی تھی۔

اس طرح انھوں نے سیاسی اثر نہ ہونے اور روائتی سردار نہ ہونے کے باجود ضلع گھوٹکی کے طاقتور ترین دو اہم خاندانوں بشمول مہر خاندان اور لُنڈ خاندان کو سیاسی طور پر شکست دی۔

وہ الیکشن جیت گئے۔ ان کے قومی اسمبلی میں ہونے کے دوران گھوٹکی سے ایک ہندو لڑکی رنکل کماری غائب ہوگئیں، جنہیں بعد میں ایک پریس کانفرنس میں ظاہر کیا گیا کہ وہ میاں مٹھو کے پاس ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرلی ہے۔ اس دوران رنکل کماری کیس کی سماعت کے دوران میاں مٹھو کے لوگوں نے جشن کے طور پر شہر میں ریلی نکالی اور عدالت کے احاطے میں بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی نمائش بھی کی۔

اس کے بعد رنکل کماری کے کراچی میں رہنے والے ماموں نے اس کیس کو بغیر ڈرے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی کوریج دلوائی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ کراچی میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔ ان مظاہروں میں لوگوں نے الزام عائد کیا کہ میاں مٹھو ہندو لڑکیوں کے اغوا میں ملوث ہیں اور زبردستی ان کے مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

ایک ملاقات میں میاں مٹھو نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ وہ کبھی ایسا نہیں کرتے مگر چونکہ وہ ایک درگاہ سے منسلک پیر ہیں اور کوئی بھی ہندو ان کے پاس آتا ہے اور مذہب تبدیل کرنے کا کہتا ہے تو وہ انکار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس ہر سال دو سو سے زائد ہندو آتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہیں۔

بعد میں جب سوشل میڈیا کا دور آیا تو لوگوں نے کھل کر ان کی مخالفت کی جس کے باعث پیپلز پارٹی نے ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی۔ وہ پی ٹی آئی میں جانا چاہتے تھے مگر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مخالفت کے باعث پی ٹی آئی نے بھی انہیں پارٹی میں شامل نہیں کیا اور اب جب بھی گھوٹکی میں ہندوؤں کے متعلق کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری کی بات کی جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں