وزیر خارجہ جواد ظریف کے بیانات کی ریکارڈنگ لیک، پورے ایران میں تہلکہ مچ گیا

تہران (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/بی بی سی) ایرانی وزیر خارجہ کے ملکی سفارتکاری اور سیاسی اختیارات کے حوالے سے ایسے تنقیدی بیانات لیک ہوئے ہیں جو اس اسلامی جمہوریہ کے چند پوشیدہ معاملات منظر عام پر لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس پر ایران میں خاصا تہلکہ مچ گیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ان غیر معمولی بیانات نے ملک میں خاصہ تہلکہ مچا دیا ہے۔ ایران کا شمار ایک ایسے ملک میں ہوتا ہے جہاں حکومتی اہلکار بہت سوچ سمجھ کر اور نپے تلے الفاظ میں بیان دیا کرتے ہیں۔ ایران کا سیاسی ماحول کافی حد تک گھٹا ہوا ہے اور یہاں کی انقلابی گارڈز یا پاسداران انقلاب کے پاس بے پناہ طاقت ہے اور ہر سیاسی فیصلے کا حتمی اختیار ملک کے سپریم لیڈر کے پاس ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جواد ظریف اس سال 18 جون کے صدارتی انتخابات کے ایک ممکنہ امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔

جواد ظریف کا انٹرویو کس نے کیا؟

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا یہ انٹرویو لندن میں قائم فارسی زبان کا ایک سیٹیلائیٹ نیوز چینل ‘ایران انٹرنیشنل‘ نے کیا تھا۔ تین گھنٹوں سے کچھ طویل اس انٹرویو کی فائل اس چینل نے پیر کو ایسوسی ایٹیڈ پریس کے ایک ایسے نمائندے کے ساتھ شیئر کی جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے۔ واضح رہے کہ تہران ماضی میں چینل ‘ایران انٹرنیشنل‘ کو 2018ء پر ایرانی شہر اھواز میں ایک ملٹری پریڈ پر ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملے کے ضمن میں ایک بیان نشر کرنے پر سخت تنقید کر چُکا ہے۔ اس حملے میں ملوث عسکریت پسندوں کے ترجمان نے اس حملے کی تعریف کی تھی جسے لندن میں قائم اس چینل نے نشر کیا تھا۔ یاد رہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں ایک بچے سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایران کی تنقید کی چینل کے برطانوی ریگیولیٹرز نے تردید کر دی تھی۔

ظریف کا بیان

مذکورہ انٹرویو کے چند خاص خاص حصوں کو نیوز چینل ‘ایران انٹرنیشنل‘ نے راتوں رات نشر کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ان بیانات کے لیک ہونے کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے گرچہ اس ٹیپ کی صداقت پر سوال نہیں اُٹھایا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جواد ظریف نے قریب سات گھنٹے کا انٹرویو ایک معروف ماہر اقتصادیات کو دیا تھا اور اس کا انعقاد ایرانی صدارتی محل سے وابستہ ایک تھنک ٹینک نے کیا تھا۔

خطیب زادہ نے اس ریکارڈنگ کو لیک کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ انٹرویو کے منتخب حصوں کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔ تاہم خطیب زادہ اور دیگران نے اس پر کوئی رائے نہیں دی کہ یہ کیسے عام ہوا۔

ظریف نے بیان میں کیا کہا؟

ایرانی وزیر خارجہ نے انٹرویو میں کہا کہ ایران کی نیو کلیئر ڈیل کو روس روکٓنا چاہتا ہے اور یہ موضوع ظریف کے لیے اتنا اہم اور نازک تھا کہ انہوں نے انٹرویو کرنے والے سے کہا،” آپ کسی صورت بھی یہ حصہ نشر نہیں کر سکتے۔‘‘

اس آّڈیو میں وہ شکایت کر رہے ہیں کہ پاسداران انقلاب ملک کی خارجہ پالیسی پر حاوی ہے اور اسی نے ایران کو روس کی ایما پر شام کی جنگ میں دھکیلا ہے۔ وزیر خارجہ بار بار یہ شکایت کرتے سنائی دیتے ہیں کہ پاسداران انقلاب نے ایران کی سفارتکاری اور خارجہ پالیسی کو خطے میں اپنی جنگی ضروریات کا ماتحت بنا رکھا ہے۔ ظریف نے ان اطلاعات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ کس طرح شام میں اسلحہ اور فوج پہنچانے کے لیے سویلین طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ ٹیپ میں وہ شکایت کرتے ہیں کہ قاسم سلیمانی نے ملٹری مقاصد کے لیے ایران کی قومی ایئرلائن ’ایران ایئر‘ کا استعمال کیا اور اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اس سے ملک کی ساکھ کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ ظریف کہتے ہیں کہ پاسداران انقلاب بھی کبھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ معاہدہ ہو اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے۔ انھوں نے ان کوشش کی مثال دیتے ہوئے دو واقعات کا ذکر کیا: ایک، میزائل تجربہ کیا گیا اور میزائل پر عبرانی زبان میں درج تھا کہ ’اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے‘۔ دوسرا، سنہ 2016 میں خلیج میں پیٹرول کر رہی دو امریکی کشتیوں پر سوار 10 امریکیوں کی حراست، ان کے مطابق اس معاہدے کو ناکام کرنے کی کوششیں تھیں۔ ظریف شکایت کرتے ہیں کہ پاسداران انقلاب نے انھیں کئی اہم موقعوں پر سائیڈ لائن کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب 8 جنوری 2020 کو قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایران نے عراقی ملٹری اڈے پر حملہ کیا تو انھیں اس حملے کے دو گھنٹوں بعد اس کے بارے میں معلوم ہوا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اسی دن جب پاسداران انقلاب کے ائیر ڈیفینس یونٹ نے تہران سے پرواز کرنے والے یوکرین کے مسافر طیارے کو ظاہر غلطی سے نشانہ بنایا تو کمانڈر چاہتے تھے کہ وہ ایران کے قصوروار ہونے کی تردید کریں۔ اس واقعے میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ روس کے اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ تعلقات سرد تھے اور باراک اوباما انتظامیہ ہی نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ جوہری ڈیل کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ شام کی جنگ میں روس اور ایران ایک دوسرے کے حلیف ہیں مگر اس کے باوجود بعض اوقات کریملن اور تہران کے مابین بھی کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ جواد ظریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا،” اگر ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیح نہ ہوتا تو چین اور روس ان کی ترجیح بنتے۔‘‘ ظریف کا مزید کہنا تھا،” مغرب کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ چین اور روس کی ضرورت ہے، انہیں کسی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ ہمیشہ ہمارے ذریعے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‘‘ وہ الزام لگاتے ہیں کہ روس کبھی نہیں چاہتا تھا کہ ایران کے مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں۔ ان کے یہ الفاظ حیران کن ہیں کیوں کہ عام طور پر یہی دیکھا اور سمجھا گیا ہے کہ ان کے لیوروف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور یہ کہ روس ایران کا ایک اہم اتحادی ہے۔

چین اور روس دونوں ہی جوہری ڈیل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ پیر کے روز جواد ظریف کے بیانات لیک ہونے پر ان ممالک کے ویانا مشن سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ لیک ہونے والی ریکارڈنگ میں جواد ظریف نے پاسداران انقلاب کے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جن کے روس کے ساتھ علیحدہ سے تعلقات قائم تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو 2020 ء میں عراق میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد ایران اور امریکا جنگ کے دہانے پر آ پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ جنرل سلیمانی کے جنازے کے جلوس میں شرکت کے خواہشمند لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے تھے۔

دریں اثناء سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کو ایران پر دباؤ کی مہم میں شدت کی طرف دھکیلا تھا، نے ظریف کے بیانات لیک ہونے کے بارے میں ایک ٹویٹ میں تحیریر کیا،” یہ ایک عمدہ وار ہے جس کے اثرات ایران اور مشرق وسطیٰ پر بہت گہرے ہوں گے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں