اسلامو فوبیا: کینیڈا میں ٹرک حملے میں پاکستانی نژاد چار افراد ہلاک، ایک زخمی

اوٹاوا (ڈیلی اردو) کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں ایک شخص نے ایک مسلم کنبے پر گاڑی چڑھا دی جس سے چار افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ مسلمان ہونے کے سبب اس خاندان کو نشانہ بنایا گیا۔

کینیڈا میں صوبے انٹاریو کے لندن شہر میں پولیس حکام نے سات جون پیر کے روز بتایا کہ ایک نوجوان نے مشتبہ طور نفرت کی وجہ سے منصوبہ بند طور پراپنی گاڑی سے راہگیروں کو ٹکر مار کر ایک مسلم خاندان کے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔

مقامی پولیس سربراہ اسٹیو ویلئم نے اس واقعے سے متعلق ایک بیان میں کہا، ”ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی دانستہ حرکت تھی اور یہ کہ اس خوفناک واقعے میں ہدف بنا کر متاثرین پر حملہ کیا گیا۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ ان پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔”

پولیس کا کہنا ہے کہ 20 سالہ مشتبہ حملہ آور نے فٹ پاتھ پر پیدل جانے والے پانچ افراد پر گاڑی چڑھا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ تاہم حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے والا ایک نو برس کا بچہ زندہ بچ گیا جو اسپتال میں اب بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا، ”لندن کی مسلم برادری اور پورے ملک کی مسلم کمیونٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری کسی بھی برادری میں اسلامو فوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ عیاری و مکاری پر مبنی اس نفرت کو رکنا ہی ہو گا۔”

عینی شاہدین نے گلوبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ انہوں نے گاڑی کو سڑک کی درمیانی پٹی کے اوپر آتے ہوئے دیکھا اور انہیں ایسا لگا جیسے یہ اچانک سڑک کے دوسری جانب سے آ گئی ہو۔ حملہ آور ڈرائیور کو ایک قریبی مال کی پارکنگ سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عمدا ًاقدام قتل کے چار الزامات اور قتل کی کوشش کرنے کے ایک الزام کا سامنا ہے۔

خفیہ ایجنسی سے وابستہ ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس سے اس بات کے لیے صلاح و مشورہ جاری ہے کہ ملزم پر دہشت گردانہ قانون کے تحت کیس درج کیا جائے۔

متاثرین کون ہیں؟

پولیس نے بتایا ہے کہ جو چار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے، اس میں ایک 74 سالہ خاتون، 46 سالہ ایک مرد، 44 سالہ ایک خاتون اور ایک پندرہ برس کی لڑکی شامل ہے۔ نو برس کا ایک لڑکا بھی شدید طور پر زخمی ہوا ہے جس کا مقامی ہسپتال میں علاج جاری ہے۔ حکام کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ بچہ شاید بچ جائے۔ اہل خانہ نے پولیس سے متاثرین کے نام افشا نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

نمائندہ ڈیلی اردو کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔

متاثرہ خاندان کے ایک دوست زاہد خان نے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ متاثرین میں ایک دادی، ماں باپ اور ایک کم عمر بچی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ خاندان تقریباً چودہ برس قبل پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آ یا تھا اور ایک مقامی مسجد کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ ”وہ چہل قدمی کے لیے باہر نکلے تھے۔یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔”

لندن کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی قتل عام کی ایک واردات ہے جس کی جڑیں گھٹیا نفرت پر مبنی ہیں۔ یہ نا قابل بیان نفرت اور اسلامو فوبیا پر مبنی حرکت ہے، جس کا جواب انسانیت اور ہمدردی سے دینے کی ضرورت ہے۔”

ہولڈر کا کہنا ہے کہ لندن تقریباً چار لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ہے جس میں تقریبا 30 سے چالیس ہزار مسلمان آباد ہے اور متاثرین کے احترام میں شہر میں تین دن تک قومی پرچم کو سر نگوں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)کینیڈین پولیس نے مقامی شہری کی جانب سے پاکستانی نژاد چار شہریوں پر ٹرک چڑھا کر قتل کرنے کے واقعے کو مذہبی منافرت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم نے چاروں شہریوں کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کیا ہے۔​ پاکستان نے کہا ہے کہ یہ واقعہ کینیڈین معاشرے کے لیے امتحان ہے۔

اتوار کی شب پیش آنے والے واقعے میں 20 سالہ نتھانیل ویلٹمن نے کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں فٹ پاتھ پر ٹرک چڑھا کر مسلم خاندان کے چار افراد کو ہلاک جب کہ ایک کو شدید زخمی کر دیا تھا۔

پولیس نے نتھانیل ویلٹمن پر قتل عمد کے چار الزامات عائد کیے ہیں۔

پولیس رپورٹ کے مطابق نتھانیل ویلٹمن لندن شہر کا ہی رہائشی ہے جس نے جان بوجھ کر رکاوٹ عبور کی اور چوراہے پر سگنل کے انتظار میں کھڑے خاندان کو اپنے ٹرک سے روند ڈالا۔

واقعے کے فوری بعد پولیس نے نتھانیل کو قریبی پارکنگ لاٹ سے گرفتار کر لیا تھا۔

پولیس کے مطابق واقعے میں قتل ہونے والوں میں ایک مرد اور تین خواتین شامل ہیں جن کی عمریں بالترتیب 77، 46، 44 اور 15 برس ہیں جب کہ ایک نو سال کا بچہ زخمی بھی ہوا ہے جسے تشویش ناک حالت میں اسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔

البتہ پولیس نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے نام ظاہر نہیں کیے۔

واقعے کی رپورٹ میں پولیس نے کہا ہے کہ ویلٹمن ہلاک ہونے والوں کے ناموں سے نا واقف تھا لیکن ملزم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے متاثرہ خاندان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی نشانہ بنایا تھا۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ پال ویٹ کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ملزم کا منافرت میں یقین رکھنے والے کسی گروہ سے کوئی تعلق ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ وفاقی پولیس اور قانون کے نفاذ پر مامور محکمہ ان الزامات کی چھان بین کریں گے کہ آیا ملزم کا کسی دہشت گرد گروپ سے تو کوئی تعلق نہیں۔

اخباری نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پال ویٹ نے نفرت پر مبنی الزام کے حوالے سے کوئی تفصیلی ثبوت پیش نہیں کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔

کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ان کی لندن شہر کے حکام سے فون پر بات ہوئی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ ہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے دستیاب تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم متاثرہ افراد کا غم بانٹنے کے لیے موجود ہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں جسٹس ٹروڈو نے کہا کہ “لندن اور ملک بھر میں رہنے والی مسلمان برادری کو گوش گزار کردوں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری کمیونٹیز میں اسلامو فوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ نفرت کا یہ واقعہ داخلی نوعیت کا اور حقیر قسم کا معاملہ ہے اور اسے لازمی طور پر روکا جائے۔”

‘واقعہ کینیڈین معاشرے کا امتحان ہے’

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ متاثرہ فیملی المناک سانحے کے باعث کرب کا شکار ہے جس کے ساتھ پہلا رابطہ ٹورانٹو میں ہمارے قونصل جنرل کا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان کو میتیں پاکستان بھجوانے کی پیشکش کی تھی لیکن وہ وہیں تدفین کے خواہش مند ہیں۔

پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ تین بے گناہ، بے قصور نسلیں اس واقعے سے متاثر ہوئی ہیں جب کہ پولیس کی تحقیقات کے مطابق اس واقعے میں اسلاموفوبیا کا عنصر بھی موجود ہے۔

شاہ محمود قریشی کے بقول “میرے نزدیک یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے، میں بطور وزیرِ خارجہ کینیڈین وزیرِ اعظم سے کہوں گا کہ یہ ان کے معاشرے کا امتحان ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

‘وقت آگیا کہ لوگ اسلامو فوبیا کے رویے کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں’

اتوار کو ہلاک ہونے والے چاروں پاکستانی نژاد کینیڈین شہریوں کے لواحقین کی جانب سے جاری ایک بیان میں ہلاک افراد کے نام درج ہیں۔ 46 برس کے سلمان افضل، ان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ، 15 برس کی بیٹی یمنہ اور 74 برس کی دادی (جن کا نام نہیں بتایا گیا) شامل ہیں جب کہ اسپتال میں زیرِ علاج بچے کا نام فیاض بتایا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سبھی ہمسایے سلمان خاندان کو جانتے تھے۔ وہ مسلمان، کینیڈین اور پاکستانی تھے۔ ان کا تعلق مختلف پیشوں سے تھا اور انہوں نے محنت سے اپنا نام کمایا تھا۔

بیان کے مطابق ”سلمان کے بچوں کا شمار اسکول کے ہونہار طلبہ میں ہوتا تھا اور وہ دین دار ہونے کی شناخت رکھتے تھے۔”

متاثرہ خاندان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ “یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے جس میں جان بوجھ کر ایک کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ لوگ نفرت اور اسلامو فوبیا کے رویے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔”

لندن شہر کے میئر ایڈ ہولڈر کا کہنا ہے کہ یہ ”اجتماعی قتل کا واقعہ ہے جس میں ایک مسلم خاندان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ ایک ناقابلِ بیان اور نفرت کی بنا پر سرزد ہونے والا واقعہ ہے۔

دریں اثنا شہر کے پولیس سربراہ اسٹیفن ولیمز نے کہا ہے کہ “کمیونٹی میں رواداری کا فقدان ہے۔ یہی سبب ہے کہ نفرت کی بنا پر ایسے واقعات نمودار ہونے لگے ہیں۔”

کینیڈا کو تمام مذاہب کے ماننے والے تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرنے والا ملک خیال کیا جاتا ہے لیکن وہاں اس سے قبل بھی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کا واقعہ رپورٹ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس وقت صفِ اول کے تمام ٹرینڈز کینیڈا میں پیش آنے والے واقعے کے گرد گھومتے دکھائی دے رہے ہیں اور ہیش ٹیگز جیسا کہ #Islamophobia ،#MuslimsLiveMatters کے تحت صارفین اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مغربی ممالک میں مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے تعصب پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کے بعد ٹویٹ کیا کہ ’دہشت گردی کا یہ قابل مذمت اقدام مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو ظاہر کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو مل کر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

لندن سے مسلم کونسل کے ترجمان مقداد وارسی نے ٹویٹ کیا کہ ’اسلاموفوبیا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اُس کی سنگینی کو مدِنظر رکھتے ہوئے نہیں نمٹا جاتا۔‘

انھوں نے مزید لکھا ایسے واقعات کی گونج مسلم دنیا میں سنائی دیتی ہے اور یہ واٹس گروپس اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں اور بہت سے لوگوں پریشان رہتے ہیں کہ شاید ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو جائے۔

کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر ہیملٹن میں مقیم پاکستانی نژاد صحافی عائشہ ناصر کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ سے مسلمان کمیونٹی سے ہی یہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم اپنی مساجد اور گھر کھولیں اور حجاب ترک کر دیں تاکہ سکیورٹی حکام ہم پر کسی جرم کے حوالے سے شک نہ کریں۔‘

انھوں نے سوال کیا ’لیکن یہ ذمہ داری ان افراد پر کب آئے گی جو اس وقت اقتدار میں ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ایسے قتل روکنے کے لیے وہ کیا کر رہے ہیں؟‘

برطانیہ سے صحافی محمد شفیق نے تبصرہ کیا: ’ہمیں یہ مت کہیے کہ اسلاموفوبیا حقیقت نہیں اور اس کے اثرات نہیں ہوتے۔‘

انڈیا سے فیضل پیراجی نے لکھا ’ایک بار پھر ایک کینیڈین خاندان کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کو دفنانا پڑا۔‘

ذیشان نامی صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’پوری دنیا نفرت کی ایک ایسی آگ کی لپیٹ میں ہے جسے بجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس آگ کو ہوا دینے والے بہت ہیں اور اس پر پانی ڈالنے والے بہت کم۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ اس نفرت کی آگ پر قابو پایا جا سکے۔

اونٹاریو کے کونسلر محمد صالح نے ٹویٹ کیا کہ ’میں ایمانداری سے بتانا چاہتا ہوں کہ میں غصے میں ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور میں مسلسل اس خاندان کے بارے میں سوچ رہا ہوں جسے ہم سے چھین لیا گیا۔‘

صوبہ اونٹاریو میں کام کرنے والی ایک وکیل زاہرہ نے ٹویٹ کیا کہ ’ہم میں سے بہت سارے افراد کی فیملیز شام کو چہل قدمی کے لیے نکلتی ہیں، میری والدہ نے اس دوران اکثر حجاب اور شلوار قمیض پہنی ہوتی ہے۔‘

’اور اب ہمیں یہ کرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہونا پڑے گا؟ اور اپنے اردگرد موجود خطرات کے بارے میں ہر وقت آگاہ رہنا ہو گا؟ یہ خاندان ہمارا بھی ہے۔ مدیحہ ہم میں سے کسی کی ماں بھی ہو سکتی تھی۔ ہم بطور کمیونٹی افسردہ ہیں اور ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘

2017 میں ایک فرانسیسی زبان بولنے والے دائیں بازو کے قوم پرست شخص نے کیوبک شہر کی ایک مسجد میں گھس کر فائرنگ کی تھی اور اس واقعے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں