جاسوسی کا الزام: عدالت نے وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی درخواست ضمانت خارج کردی

ڈیلی اردو (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت خارجہ کے چینی ڈیسک پر ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ایک سینئر اہلکار کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حساس معلومات لیک کرنے سے متعلق کیس میں خارج کردی۔

رپورٹس کے مطابق وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے 18 گریڈ کے اہلکار سید قلب عباس تقریباً 3 سالوں سے وزارت خارجہ میں ڈیپوٹیشن پر چائنا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

انسداد دہشت گردی ونگ (سی ٹی ڈبلیو) میں درج ان کے خلاف ایف آئی آر کے مطابق وہ اکثر ‘سفارت کاروں اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے ریاست کے تحفظ اور مفادات کے حوالے سے خفیہ معلومات / دستاویزات فراہم کرتے تھے’۔

ملزم نے 2000 کے اوائل میں وزارت غذا، زراعت اور مویشی میں بحیثیت ریسرچ آفیسر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

تحریر جاری ہے‎

مزید پڑھیں: عدالت نے ایس ای سی پی کو ‘ڈیٹا لیک کے مشتبہ عہدیدار’ کے خلاف کارروائی سے روک دیا

بعد ازاں وہ سیکشن آفیسر بن گئے تھے اور اقوام متحدہ اور غیر ملکی تربیت کے معاملات دیکھنے والے معاشی امور ڈویژن کے ایک سے وابستہ رہے۔

وہ ستمبر 2018 میں وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بنے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت درج مقدمے میں قلب عباس پر حساس معلومات لیک کرنے کا الزام ہے۔

اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق مشتبہ شخص روسی انٹیلیجنس کے لیے کام کرنے والے منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا اور اس سے اس کے ساتھیوں کی شناخت اور اُس نے اس طرح کی معلومات اور سرکاری دستاویزات کیسے حاصل کیے اس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے پر ملزم کے وکیل شاہ خاور نے استدلال کیا کہ ان کے مؤکل کی ملازمت کی نوعیت کی وجہ سے انہیں سفارتکاروں سے ملاقات کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس بے داغ سروس ریکارڈ موجود ہے۔

وکیل دفاع نے دعوٰی کیا کہ ایف آئی آر جعلی اور غیر سنجیدہ بنیادوں پر مبنی ہے، اس کیس کو مزید تفتیش کی ضرورت ہے لہذا درخواست گزار ضمانت پر آزاد ہونے کا حقدار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے پر وہ مفرور ہوسکتا ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ درخواست گزار نومبر 2020 سے لاپتا تھا جب کہ 15 فروری کو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گمشدگی کے دوران ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

وکیل نے بتایا کہ آخر کار ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی اور ان پر سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔

دلائل کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ قلب عباس کو ایف آئی آر میں نامزد ان سے منسلک ایک خاص کردار کی وجہ سے کیا گیا۔

انہوں نے استدلال کیا کہ درخواست گزار کا بیان فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 164 کے تحت درج کیا گیا ہے اور بازیابی کی گئی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ شواہد سے واضح طور پر یہ ثابت ہوا ہے کہ درخواست گزار غیر ملکی انٹیلیجنس حکام کے لیے کام کر رہا ہے۔

انہوں نے عدالت کو یاد دلایا کہ درخواست گزار کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں، اگر وہ ثابت ہوئے تو اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے اور اس وجہ سے وہ ضمانت سے آزاد ہونے کا اہل نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد مشاہدہ کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے علاوہ عوامی اعتماد کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 بھی لگائی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ مقدمے کی سماعت پہلے ہی شروع ہوچکی ہے لہذا وکیل دفاع جلد از جلد مقدمے کو ختم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرسکتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں