ضلع کرم سے نجی کمپنی کے مغوی ملازم کی لاش برآمد، 5 تاحال لاپتہ

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) اففانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم سے دو ہفتے قبل اغوا ہونے والے نجی موبائل کمپنی کے ملازمین میں سے ایک شخص کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پیر کو ملنے والی یہ لاش ایک مزدور کی ہے جس کا تعلق پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے ہے۔

کرم کے ضلعی پولیس افیسر طاہر اقبال نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ نامعلوم افراد نے دو ہفتے قبل مجموعی طور پر 16 افراد کو اغوا کیا تھا۔ مغوی ایک نجی کمپنی کے موبائل ٹاور کے تعمیراتی منصوبے پر کام کررہے تھے۔

اغوا کاروں نے بعد میں دس افراد کو چھوڑ دیا تھا جب کہ دیگر چھ افراد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

انہوں نے تصدیق کی ہے کہ اغوا ہونے والوں میں شامل پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے مزدور پچیس سالہ گل فراز ولد ذوالفقار کی گولیوں سے چھلنی لاش پیر کی صبح ملی ہے۔

لاش کو طبی اور قانون کارروائی کے بعد پنجاب روانہ کر دیا گیا ہے۔

طاہر اقبال نے مزید بتایا کہ جس علاقے سے ان لوگوں کو اغوا کیا گیا وہ نہ صرف ایک اور قبائلی ضلعے اورکزئی سے ملحق ہے بلکہ یہ علاقہ افغانستان کے علاقے تورا بورا سے بھی قریب ہے۔ اسی وجہ سے باقی لوگوں کی بازیابی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ باقی مغویوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پولیس اور فرنٹیئر کور کے مشترکہ دستے انتہائی احتیاط سے کارروائی کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اغوا کی اس کارروائی کے محرکات سامنے نہیں آئے ہیں نہیں البتہ مقامی لوگوں کا کہنا کہ ایسی کارروائیاں تاوان وصول کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔

’قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں‘

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال سے مطمئن نہیں ہیں۔

زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے رہنما اس سلسلے میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نتیجہ خیز اقدامات کے مطالبات کرتے آئے ہیں۔

کے پی کے اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی سیکرٹری جنرل سردار حسین بابک، ضلع مہمند سے ممبر صوبائی اسمبلی نثار احمد مہمند، پاکستان پیپلز پارٹی کے انجینئر ہمایوں خان اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت کئی دیگرقبائلی علاقوں میں اغوا، دہشت گردی، گھات لگا کر قتل اور دیگر جرائم پررہنما تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔

اس کے علاوہ قبائلی اضلاع سے ممبران صوبائی اسمبلی مولانا سراج الدین، مولانا جمال الدین اور میر کلام وزیر ان واقعات پر تحاریک کے ذریعے اسمبلی کے اجلاسوں میں یہ مسئلہ زیرِ بحث لاتے رہے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے کے دوران بھی قبائلی علاقوں میں اغوا کی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ گزشتہ شب ہی جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا کے دور افتادہ علاقے وچہ درہ میں بعض نامعلوم مسلح افراد نے ایک گھر میں گھس کر اسلحے کے زور پر پانچ افراد کو اغوا کرلیا اور انہیں نامعلوم مقام کی جانب لے گئے۔

اغوا ہونے والے افراد میں محکمۂ پولیس جنوبی وزیرستان کا سب انسپکٹر گلاور بھی شامل ہے۔

واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن مکین کے ایس ایچ او قادر خان نے میڈیا کو بتایا کہ علاقے کو آنے جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کی گئی ہے۔اغوا ہونے والے افراد کی جلد اور محفوظ بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے جنوبی وزیرستان میں بدامنی کے پے در پے واقعات سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان سے محلقہ ضلع لکی مروت میں دو دن قبل پولیس حکام کے مطابق ایک کارروائی میں دو مبینہ اغوا کار مارے گئے ہیں۔

اس کارروائی سے قبل مبینہ اغوا کاروں نے پولیس کے ایک سابق اہل کار کی مدد سے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو گولیاں مار دی تھیں۔

سابق پولیس اہل کار کو حکام نے مبینہ طور پر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ روابط رکھنے اور تعاون فراہم کرنے پر ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔

رواں سال 21 فروری کو شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن میر علی کے علاقے سپین وام میں بھی اغوا کی ایک ایسی ہی کارروائی ہوئی تھی جس میں تعمیراتی منصوبے پر کام کرنے والے چھ افراد کو نامعلوم عسکریت پسندوں نے اغوا کرلیا تھا۔ مغویوں میں تین انجینئر بھی شامل تھے۔ اغوا ہونے والے یہ چھ افراد تاحال بازیاب نہیں ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ اغوا کئے جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے مقامی قبائل وقتا فوقتاً احتجاجی دھرنے بھی دیتے رہے ہیں۔

’پولیس رٹ قائم کرنے میں وقت لگے گا‘

خیبر پختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل معظم جاہ انصاری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ پشاور پریس کلب میں بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام قبائلی علاقوں میں پولیس کے نظام کو توسیع دی گئی ہے اور پولیس اہل کاروں کو ضروری سامان بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں پولیس کی تربیت اور استعداد کار بڑھانے پر توجہ دی جارہی ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت پولیس فورس کو ہر ممکن تعاون بھی فراہم کر رہی ہے۔ لیکن قبائلی علاقوں میں پولیس فورس کی رٹ قائم کرنے میں وقت لگے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں