براعظم افریقہ دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ خطہ بن گیا، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/ڈوئچے ویلے) براعظم افریقہ کو سن 2021 کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی نے شدید متاثر کر رکھا ہے۔ اس براعظم کے وسطی، مشرقی اور مغربی حصوں میں کورونا وبا کی پابندیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

افریقی براعظم میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی جانب سے تیئیس جولائی بروز جمعہ سکیورٹی کونسل کے رکن ملکوں میں تقسیم کی گئی۔ اس رپورٹ کے مرتبین اقوام متحدہ کے ماہرین کا ایک پینل ہے۔

اس رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک میں سرگرم رہنے والی دو بڑی جہادی تنظیموں نے اب ٹھکانے تبدیل کرتے ہوئے افریقی ملکوں میں ڈھیرے ڈال لیے ہیں۔ وہ کئی ملکوں میں بھرپور انداز میں متحرک اور سرگرم ہیں۔

‘اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ کا اثر

وسطی، مشرقی اور مغربی افریقہ کے ممالک میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ سے وابستگی اور نسبت رکھنے والے انتہا پسند گروپوں نے ایک وسیع علاقے کے لوگوں پر اپنا اثر قائم کر رکھا ہے۔ یہ گروپس اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور دوسرے علاقوں کے افراد کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں ناکامی کی صورت میں پرتشدد حملے اور دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے بے گنا انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان دونوں جہادی تنظیموں کے کارکنوں نے ہتھیاروں کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے زیر اثر علاقوں اور دوسرے حامی ہم خیال حلقوں سے عطیات اور چندہ بھی جمع کرنے میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے یہ اب ڈرونز کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔

جہادی گروپس کے زیر اثر علاقے

افریقہ کے جہادی سرگرمیوں سے متاثرہ ممالک میں عراق اور شام میں انتہائی سرگرم رہنے والی جہادی تنظیم داعش ‘اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ مسلح گروپوں کو القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی گروپوں کے زیر اثر علاقے وسطی اور مغربی افریقی ملکوں میں ہیں۔ اس کے مقابلے میں القاعدہ صومالیہ اور ساحل علاقے میں فعال ہے۔

جہادیوں نے مالی کی سرحدوں سے نکلتے ہوئی برکینا فاسو، آئیوری کوسٹ، نیجر اور سینیگال میں اپنی جہادی سرگرمیوں کا جال پھیلا دیا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ پرتشدد کارروائیاں نائجیریا سے کیمرون اور چاڈ سے ہوتی ہوئی دوسرے قریبی ممالک کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ نائجیریا میں انتہا پسند مذہبی گروپ بوکو حرام صدر محمد بخاری حکومت کے دعووں کے باوجود ابھی تک فعال ہے اور صومالیہ میں الشباب متحرک ہے۔ مشرقی افریقہ میں صومالیہ میں سرگرم جہادی گروپ الشباب کے کارکن کینیا اور موزمبیق سے ہوتے ہوئے تنزانیہ تک پہنچ چکے ہیں۔

‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے مقامی گروپوں کا پھیلاؤ

سن 2021 میں سب سے پریشان کن خبر داعش ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے مقامی گروپوں کا موزمبیق کے ساحلی شہر موسیمبیا دا پرائیا پر چڑھائی تھی۔ یہ اسٹریٹیجک بندرگاہی شہر تنزانیہ کی سرحد کے نزدیک ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق جوابی کارروائی کے نتیجے میں شکست کھاتے ہوئے جہادیوں نے شہر میں تباہی پھیلانے سے گریز نہیں کیا اور جاتے جاتے مستقبل کی منصوبہ بندی کے نشانات بھی چھوڑ گئے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے پھیلنے والی مہلک وبائی بیماری کووڈ انیس نے بھی جہادی گروپوں کو کسی حد تک متاثر کیا ہے۔ یہ وبا ان کے قدم ضرور روکے ہوئے ہے اور ابھی تک وہ بیماری سے متعلق کسی نئے بیانیے کو متعارف نہیں کرا سکے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ داعش یا ‘اسلامک اسٹیٹ‘ دشمن ریاستوں کو مبینہ طور پر ‘وائرس‘ کے ہتھیار سے زیر کرنے کی کوشش میں ہے لیکن انہیں اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے لیکن ایسا ضرور ہے کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں