افغانستان: طالبان کا مزارِ شریف میں داخل ہونے کا دعویٰ

کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/بی بی سی) طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا ہے کہ ان کے جنگجو پیر کی صبح شمالی شہر مزارِ شریف پر چاروں جانب سے حملے کر دیے ہیں اور کوٹا برگ کے علاقے سے شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔

تاہم بلخ صوبے کے دہدادی ضلع کے سربراہ سید مصطفی سادات نے افغان اسلامک پریس کو بتایا کہ لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور صوبائی دارالحکومت کے مضافات تک محدود ہے۔

اطلاعات کے مطابق مزار شریف کے علاوہ پُلِ خمری اور بلخ صوبے کے شہر کوٹ برگ پر بھی طالبان نے حملہ کیا ہے جبکہ شمالی صوبے سمنگن کے ضلع سلطان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

بی بی سی افغان سروس کے مطابق جنوبی شہر لشکرگاہ اور ہلمند میں اس وقت شدید لڑائی جاری ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں لشکر گاہ میں اب تک 20 شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

مزید اطلاعات کے مطابق لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دی گئی ہیں۔

گذشتہ شب پکتیا ریڈیو سٹیشن کے سربراہ اور سرکاری پراسیکیوٹر طوفان عمری کو کابل جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔ اس سے دو روز قبل جمعہ کو افغان حکومت کے میڈیا ڈائریکٹر دوا خان میناپل کو بھی طالبان نے حملہ کر کے قتل کر دیا تھا۔

طالبان کے قندوز، سرِ پُل اور تالقان پر قبضے کے دعوے

گذشتہ دو دنوں میں طالبان نے ملک کے چند اور صوبائی دارالحکومتوں پیشقدمی کی اور اتوار کو انھوں نے قندوز کے علاوہ شمالی شہر سرِ پُل اور تالقان پر بھی قبضہ کر لیا۔

ان تینوں شہروں پر کنٹرول کرنے کے بعد جمعے سے لے کر اب تک مجموعی طور پر پانچ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان سپیشل فورسز اس وقت قندوز میں طالبان سے نبرد آزما ہیں۔

گذشتہ روز افغان وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ افغان فوج کی جانب سے کیے گئے مختلف آپریشنز میں 579 طالبان جنگجو ہلاک اور 161 زخمی ہو گئے ہیں۔

یہ آپریشنز ننگرہار، خوست، لوگار، پاکتیا، قندھار، ہرات، فراہ، جوزجان، سمنگن، ہلمند، ٹخر، قندوز اور پنج شیر صوبوں میں جاری ہیں۔

اس کے علاوہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں افغان اور امریکی طیاروں نے بھی مزید فضائی حملوں میں طلبان کو نشانہ بنایا ہے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان فوج قندوز شہر کے ہوائی اڈے پر جمع ہو چکی ہے، لیکن وزارت دفاع کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ شہر میں شدت پسندوں کے خلاف کلین اپ آپریشن جاری ہے اور طالبان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

روئٹرز کے مطابق دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے قطر میں قائم نیوز چینل الجزیرہ کو بتایا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اور انھوں نے امریکہ کو مزید فضائی حملے کرنے پر خبردار کیا ہے۔

امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا تقریباً مکمل کر لیا ہے تاہم وہ اب بھی طالبان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔

قندوز پر طالبان کی جانب سے قبضہ اب تک کی ان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے جبکہ یہ افغان حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

خیال رہے قندوز وسطی ایشیا کا دروازہ کہلاتا ہے اور اسی کی سٹریٹیجک اور معاشی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اتوار کی صبح جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے قندوز اور سرپُل پر مسلسل حملوں کے بعد آج صبح کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور دونوں صوبائی دارالحکومتوں کے تمام سرکاری دفاتر ان کے قبضے میں ہیں۔‘

اس سے قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن امرالدین ولی نے بتایا کہ ’شہر کے مختلف علاقوں کے چپے چپے پر شدید لڑائی جاری ہے۔‘

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے قندوز کے رہائشی عبدالعزیز نے بتایا تھا کہ ’طالبان شہر کے مرکزی سکوائر تک پہنچ چکے ہیں اور اس دوران ان پر فضائی بمباری ہو رہی ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔‘

طالبان کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ قندوز میں انھوں نے بہت سی حکومتی عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاہم افغان وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ سپیشل فورسز بھی شہر میں موجود ہیں اور شرپسندوں سے لڑائی جاری ہے۔

ادھر کابل میں امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ اگر طالبان بین الاقوامی قانونی جواز کا دعویٰ کرتے ہیں تو مسلسل حملے انہیں ان کی قانونی حیثیت کے قریب نہیں لائیں گے۔ انہیں اپنی توانائی امن عمل کے لیے وقف کرنی چاہیے نہ کہ ایک فوجی مہم کے لیے۔‘

گذشتہ روز صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان پر طالبان کے قبضے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی تھی جبکہ دو روز قبل طالبان نے جنوب مغربی صوبے نمروز کے صوبائی دارالحکومت زرنج پر بھی قبضہ کیا تھا۔

طالبان اور افغان افواج کے درمیان رسہ کشی
ملک کے زیادہ تر دیہی علاقوں کا کنٹرول پہلے ہی افغان فورسز کے ہاتھ سے نکل کر طالبان کے پاس جا چکا ہے اور اس وقت افغان فورسز ملک کے شہروں کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ جوزجان کے شہر شبرغان سے طالبان کا قبضہ واپس لینے کے لیے امریکی فضائیہ کے بی 52 لڑاکا طیاروں نے گذشتہ شام طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں انھیں شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ان کی جانب سے ان فضائی حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’یہ حملے ان کی پناہ گاہوں اور اجتماعات پر کیے گئے تھے جن میں 200 سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے اسلحے اور سینکڑوں گاڑیوں کی تباہی کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘افغان فورسز کے ننگرہار، لغمان، غزنی، پکتیا، پکتیکا، قندھار، اروزگان، ہرات، فراہ، جوزجان، سرِ پل، فریاب، ہلمند، نمروز، قندوز، بدخشان، تخار اور کپیسا میں مختلف آپریشنز میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 572 دہشتگرد اور 309 زخمی ہوئے ہیں۔’

https://twitter.com/MoDAfghanistan/status/1424246470157406208?s=19

طالبان نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ گروپ کے ارکان نے سنیچر کی سہ پہر گورنر آفس، پولیس ہیڈ کوارٹر اور جوزجان کے گورنر کے دفتر پر حملہ کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز اور شہری باغی شہر سے فرار ہو چکے ہیں۔ طلوع نیوز کے مطابق اس وقت قندوز، سرِ پل، قندھار ، ہلمند ، بدخشان اور بلخ سے شدید لڑائی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نکول فریرا نے بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ‘امریکی لڑاکا طیاروں کے مخصوص حملوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے ، لیکن یہ کہ امریکی افواج نے افغان عوام کے دفاع میں حالیہ دنوں میں کئی فضائی حملے کیے ہیں۔’

افغان عوام 9/11 کے حملوں اور 2001 میں طالبان کے ٹھکانوں پر امریکی بمباری کی وجہ سے امریکی بی 52 فوجی طیاروں سے واقف ہیں۔

ان طیاروں کو عراق کے سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ‘آپریشن انڈیورنگ فریڈم’ میں بھی استعمال کیا گیا تھا جو افغانستان میں طالبان کے زوال کا باعث بنے۔

‘افغانستان سے افواج کا انخلا حکمت عملی کی غلطی تھی’

دوسری جانب ایک سابق برطانوی فوجی جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا حکمت عملی کی غلطی تھی اور اس سے دہشتگردی کے واقعات دوبارہ بڑھ سکتے ہیں۔

جنرل سر رچرڈ بیرنس، جو جوائنٹ فورسز کمانڈ کے سربراہ تھے، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ‘برطانیہ اور مغربی اتحادیوں نے افغانستان کا مستقبل بیچ دیا ہے۔’

امریکی افواج کے علاوہ برطانوی دستے بھی افغانستان سے جاچکے ہیں جس کے بعد طالبان نے گذشتہ چند دنوں میں پانچ بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

جنرل بیرنس نے کہا کہ ‘اب یہ انخلا حکمت عملی کی غلطی ثابت ہوا ہے۔ مجھے نہیں لگتا یہ ہمارے اپنے مفاد میں تھا۔’

ان کے مطابق اس سے ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کو اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ ‘اس سے لگتا ہے کہ ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ہم چیزوں کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔ (اس سے لگتا ہے کہ) ہم بس چلے گئے اور یہ یقینی نہیں بنایا کہ اب انسانی و سیاسی بحران پیدا نہیں ہوگا۔’

انھوں نے مزید کہا کہ دہشتگرد گروہ اب دوبارہ افغانستان پر قابض ہوسکتے ہیں اور یورپ یا دیگر جگہوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ‘

خیال رہے کہ افغانستان میں صورتحال خراب ہونے کے باعث برطانوی حکومت نے تمام شہریوں کو افغانستان چھوڑنے کا کہا ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتا ہے یا مزید دہائیوں تک یہاں خانہ جنگی جاری رہ سکتی ہے اگر مذاکرات اور جنگ بندی نہ ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں