افغان جیلوں پر طالبان کا قبضہ، ہزاروں قیدی رہا

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان کے صوبہ تخار کی جیل میں قیدیوں کو جیسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ طالبان کے شہر میں داخل ہوتے ہی ان سب کی رہائی ممکن ہو پائے گی۔

سوشل میڈیا پر تخار جیل کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں بڑی تعداد میں قیدی جیل کے صحن میں سامان اٹھائے موجود ہیں اور طالبان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ ان قیدیوں میں خطرناک مجرم اور وہ قیدی بھی شامل تھے جو یا تو طالبان کے رکن تھے یا ان کے حامی۔

اس ویڈیو میں ایک شخص یہ بتا رہا ہے کہ قیدی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور مجاہدین دروازے پر انتظار کر رہے ہیں لیکن تب تک انھیں رہا نہیں کیا گیا جب تک کارروائی مکمل نہیں کر لی گئی۔ اس کے بعد دوسری ویڈیو میں قیدیوں کو باہر نکلتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے اور وہ جیل سے رہا ہونے پر خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں کی جیلوں سے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے اور اس بارے میں سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں۔

طالبان کے زیر اثر آنے والے اب تک چھ شہروں کی جیلوں سے ہزاروں قیدی رہا ہو چکے ہیں جن میں خطرناک جرائم پیشہ مجرم بھی شامل ہیں۔ ان میں قندوز، تخار اور کچھ دیگر علاقوں کی جیلیں شامل ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کا کسی بھی شہر میں داخل ہونے کے بعد پہلا ہدف جیل پر حملہ ہوتا ہے جہاں سے قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے جس کے بعد دیگر اہم مقامات پر قبضہ کیا جاتا ہے۔

تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق قیدیوں کو رہا وہ نہیں بلکہ خود جیل کا عملہ کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ان جیلوں کی ویڈیوز چند روز پہلے وائرل ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیلوں میں قیدی اپنے سامان اٹھائے موجود ہیں اور پھر انھیں جیلوں سے نکلتے دیکھا جا سکتا ہے اور طالبان کے افراد ادھر موجود ہیں۔ قیدی ان طالبان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اور بعض قیدی تو ان طالبان کے ہاتھ بھی چومتے ہیں۔

فاریاب اور قندوز کی ویڈیوز میں خواتین قیدیوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو جیل سے باہر آتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ان ویڈیوز کے حقیقی ہونے کی تصدیق افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کی ہے۔ انھیں دو ویڈیوز بھیجی گئیں اور ان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ویڈیوز تین روز پہلے کی ہیں اور ایک تخار شہر اور دوسری قندوز شہر کی جیل کی ہے۔

جیلوں سے قیدی کیوں آزاد کر دیے جاتے ہیں؟
افغانستان سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں جب سے طالبان نے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کی ہے وہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ شہر کی جیلوں کے تالے توڑ دیے جاتے ہیں اور قیدیوں کو آزاد کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ اس شہر کے اہم مقامات جیسے انتظامی دفاتر یا اہم مقامات کا کنٹرول بعد میں حاصل کیا جاتا ہے اور جیلوں کے تالے پہلے توڑ دیے جاتے ہیں۔

سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر جیلوں سے قیدی آزاد کرنا اور جیلوں کے تالے توڑ دینا ایسا پیغام ہوتا ہے کہ اس علاقے میں حکومت کی عملدراری ختم ہو چکی ہے اور اب اس علاقے میں طالبان پہنچ گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دوسری جانب جیلوں میں انتظام کرنا ہوتا ہے، قیدیوں کا کھانا اور ان کی حفاظت اور دیگر ضروری کارروائیاں ہوتی ہیں اور چونکہ طالبان اس وقت منظم نہیں ہیں تو ان کا کنٹرول ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان جیلوں میں 10 سے 15 فیصد تک قیدی ایسے ہیں جو طالبان کے ساتھی بتائے گئے ہیں جبکہ ان پانچ صوبوں کی جیلوں سے فرار ہونے والے قیدیوں میں 350 ایسے قیدی ہیں جو قتل کے الزام میں قید تھے۔

مقامی صحافیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بنیادی طور پر جیلوں کے تالے اس لیے توڑے جاتے ہیں کیونکہ افغان حکومت کے دور میں بڑی تعداد میں طالبان کے اپنے کارکنان اور ان کے حامیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس لیے انھیں آزاد کر دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ اس سے طالبان کو نئی افرادی قوت بھی میسر ہو جاتی ہے۔

مقامی صحافیوں نے بتایا کہ ان شہروں کی جیلوں سے بڑی تعداد میں قیدی رہا ہوئے ہیں جن کی اصل تعداد تو معلوم نہیں ہے لیکن یہ تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔

فراہ طالبان کے لیے ایک اہم علاقہ ہے کیونکہ اسے سمگلر افیون کی سمگلنگ کے لیے استمعال کرتے ہیں

سمیع یوسفزئی کے مطابق صوبائی سطح پر جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوگی تاہم انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جیلوں سے رہا ہونے والے کل قیدیوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان آئے تھے اس وقت بھی جیلیں توڑی گئی تھیں اور قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ ان میں ایسے قیدی بھی ہیں جن کی باہر دشمنیاں ہوتی ہیں تو ان کے لیے یہ لوگ خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

طالبان کیا کہتے ہیں؟

اس بارے میں افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو وہ رہا نہیں کرتے بلکہ جب طالبان ان علاقوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں موجود جیل کا عملہ تالے توڑ دیتا ہے یا اگر عملہ وہاں سے چلا جاتا ہے تو قیدی خود تالے توڑ دیتے ہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ ان میں تو انتہائی خطرناک مجرم بھی ہوتے ہیں تو اس کے لیے طالبان کیا کرتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے لیکن چونکہ طالبان اس وقت حالت جنگ میں ہیں اور وہ اس موقع پر یہ چھان بین نہیں کرسکتے کہ کون کون مجرم ہے اس لیے اس وقت ان کے لیے یہ بڑی مشکل صورتحال ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ان میں خطرناک مجرم شامل ہوں گے اور یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس پر قابو پایا جا سکے لیکن حالت جنگ میں جب بمباری کا خطرہ بھی ہوتا ہے، ایسے میں ان کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان جیلوں کے باہر موجود ہیں اور ان قیدیوں کو قطاروں میں جانے دے رہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے میں طالبان نے افغانستان کی جیلوں میں قید اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ سر فہرست رکھا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ان کے قیدی رہا نہیں ہوتے وہ مذاکرات اور معاہدے پر مزید عمل درآمد نہیں کر پائیں گے۔

افغان حکومت کی جانب سے بار بار یہ کوشش کی گئی کہ ان قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے کیونکہ ان میں انتہائی خطرناک مجرم شامل تھے لیکن طالبان کے اصرار پر ان قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ افغانستان میں یہ تاثر بھی سامنے آیا ہے کہ ان قیدیوں کی رہائی کے بعد افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

افغان حکومت کیوں خاموش ہے؟

افغان حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے حکومتی عہدیداران سے رابطے کیے گئے لیکن کسی سے رابطہ نہیں ہو سکا تاہم مقامی صحافیوں نے بتایا کہ چند روز پہلے افغان حکومت کا یہ بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے اس بدلتی صورتحال کو بھانپتے ہوئے بیشتر خطرناک قیدیوں کو کابل جیل میں منتقل کر دیا ہے۔

ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان حکومت یہ تسلیم نہیں کر رہی کہ اتنے زیادہ جیلوں کو توڑا گیا ہے یا ان جیلوں سے قیدی فرار ہوئے ہیں۔

سمیع یوسفزئی نے اس بارے میں بتایا کہ حکومت نے اس معاملے پر اب تک کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ افغان حکومت نے طالبان کی پیش قدمی سے پہلے بعض علاقوں سے قیدی کابل کی جیل میں منتقل کیے ہیں۔

گذشتہ ماہ 15 جولائی کو افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے اہم رکن احمد نادر نادری نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ افغان طالبان نے تین ماہ کی جنگ بندی کے لیے کہا ہے کہ افغانستان کی جیلوں میں موجود ان کے 7000 قیدیوں کو پہلے رہا کیا جائِے۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا مطالبہ ہے۔

اس بارے میں افغان حکومت کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا تھا لیکن یہ بات واضح تھی کہ جیسے پہلے قطر معاہدے میں 5000 قیدیوں کی رہائی پر بھی افغان حکومت راضی نطر نہیں آتی تھی اس مطالبے پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

واشنگٹن پوسٹ نے اپنے 31 جولائی کے شمارے میں لکھا تھا کہ قندوز کے صوبائی دارالحکومت کی طرف طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور اس جیل میں تقریباً پانچ ہزار قیدی موجود ہیں۔

اخبار میں کہا گیا تھا کہ افغان حکام کا مؤقف ہے کہ اگر ان میں سے چند بھی فرار ہوتے ہیں تو شدت پسند زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں جو پہلے سے ہی پیش قدمی کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں