وادی پنجشیر میں شہریوں کی گرفتاریوں اور ’فیلڈ ٹرائلز‘ کی اطلاعات، طالبان کی تردید

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغان سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ وادی پنجشیر میں طالبان افواج ’فیلڈ ٹرائلز‘ کر رہی ہیں۔ ان ویڈیوز میں سے ایک میں طالبان کو پنجشیر روڈ پر ایک شخص پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پنجشیر کے ضلع انابا میں اماج نیوز نیٹ ورک کے مطابق، ویڈیو میں ایک غیر مسلح شہری بظاہر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

https://twitter.com/AamajN/status/1436581141633507329?s=19

بی بی سی فارسی کے مطابق اسی ویڈیو میں سویلین کپڑوں میں ملبوس ایک اور شخص کو حراست میں لیا جا رہا ہے، وہ طالبان فورسز سے بھیک مانگ رہا ہے کہ وہ ایک شہری ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’میرے پاس میرا کارڈ ہے۔ میں ایک سویلین ہوں۔‘

طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ گروپ کی افواج عام شہریوں کو کچھ نہیں کہہ رہیں اور انھوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ پنجشیر نہ چھوڑیں۔

طالبان کے ترجمان عبدالحق وثیق نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ الزامات درست نہیں ہیں۔

وثیق نے کہا کہ ’ان (پنجشیر کے لوگوں) کو اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔‘ انہوں نے زور دیا کہ پنجشیر میں ’نہ جنگ ہے اور نہ ہی کسی کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘

حالیہ دنوں میں صوبہ پنجشیر میں شہریوں کی گرفتاریوں اور ’فیلڈ ٹرائلز‘ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

دریں اثنا افغان ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ شہرزاد اکبر نے ان رپورٹس کو ’چونکا دینے والا‘ قرار دیا اور طالبان سے آزادانہ تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اکبر نے لکھا ’پنجشیر سے آنے والی رپورٹیں چونکا دینے والی ہیں۔ شہریوں کا جان بوجھ کر قتل جنگی جرم ہے۔ طالبان کو آزادانہ تفتیش میں سہولت فراہم کرنی چاہیے۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار حسیب عمار نے ان کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’مجھے پنجشیر کے علاقے عمرز کے رہائشیوں کی تصاویر اور آڈیو کلپ موصول ہوئی ہیں جو کہ علاقے میں شہریوں کے وحشیانہ قتل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔ لیکن یہ تصاویر اتنی دردناک ہیں کہ میں انھیں دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔‘

انھوں نے مزید لکھا ’مجھے بتایا گیا کہ لاشیں کچھ عرصے سے زمین پر پڑی ہوئی ہیں اور کوئی بھی انھیں دفن نہیں کر سکتا۔‘
افغان سوشل میڈیا پر پنجشیر وادی کے اندر گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے کی تصاویر وائرل رہا ہے، کہا جا رہا ہے یہ افراد طالبان کے حکم پر صوبہ چھوڑ رہے ہیں۔

صحافی سمیع مہدی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر کے مطابق لوگوں کو پنجشیر سے زبردستی منتقل کیا جا رہا ہے۔

مہدی نے کہا ’میرے ایک ہم جماعت، جو پنجشیر بازار کے رہائشی ہیں، نے مجھے بتایا کہ تقریبا 90 فیصد آبادی علاقہ چھوڑ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بازار کے ملیہ گاؤں کے تمام باشندوں میں سے صرف ایک خاندان باقی ہے۔‘

ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے ’پنجشیر کی پراسرار وادی میں واقعی کیا ہو رہا ہے؟‘ اس رپورٹ کے مطابق تسنیم کے رپورٹرز طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پہلی بار وسطی پنجشیر گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چند خاندانوں اور طالبان افواج کے علاوہ کوئی بھی پنجشیر میں موجود نہیں ہے اور کچھ علاقوں میں بجلی منقطع ہے۔

بہت سے رہائشیوں نے اپنے گھر اور دکانیں بند کر کے شہر چھوڑ دیا ہے۔ ’شہر میں زندگی مکمل طور پر درہم برہم ہے اور بچ جانے والوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں