اسلام آباد: افغان طالبان آئینگے، پاکستان کے طالبان بھی آپ کا حشر کر دینگے، مولانا عبدالعزیز لال مسجد

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود جامعہ حفصہ مدرسے پر ایک بار پھر سے طالبان کے جھنڈے لگائے گئے ہیں۔

متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اور وفاقی انتظامیہ مدرسے کی انتظامیہ سے بات چیت کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ ترجمان جامعہ حفصہ و لال مسجد شکیل غازی کے مطابق مولانا عبد العزیز ’بضد ہیں‘ کہ وہ ’اس بار پرچم نہیں ہٹانے دیں گے۔‘

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1439155687418912768?s=19

ترجمان کے مطابق امارات اسلامیہ کے جھنڈے سنیچر کو فجر کے وقت لگائے گئے تھے۔ اس جھنڈے کو ایک بار پھر لگانے کے پیچھے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی انتظامیہ کا مطالبہ ہے کہ ’پاکستان میں اسلامی نظام متعارف کیا جائے۔‘

اس سے پہلے بھی دو بار یہ پرچم یہاں لہرایا جاچکا ہے جسے انتظامیہ کی طرف سے بات چیت کے بعد یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا تھا کہ ان کے مطالبات پر ’اعلی سطح کے افسران تک پہنچائے جائیں گے۔‘

https://twitter.com/Natsecjeff/status/1439136665952477185?s=19

تاحال اس معاملے پر پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی ہے اور اسے ’بظاہر چھوٹا سا معاملہ‘ کہتے ہوئے بات چیت سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اس سے پہلے جب یومَ آزادی کے روز پشاور میں افغانستان سے یکجہتی کے لیے چند لوگوں نے افغانستان کے جھنڈے اٹھائے تھے تو انیس افراد کے خلاف پشاور میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

’پاکستان کے طالبان آپ کا حشر کر دیں گے‘

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں مولانا عبد العزیز کو پولیس اہلکاروں سے مخاطب ہو کر یہ کہتے سنا جا سکتا ہے ’طالبان آئیں گے، پاکستان کے طالبان بھی آپ کا حشر کر دیں گے انشا اللہ۔ ہاتھ تو لگاؤ ذرا!‘

ترجمان جامعہ حفصہ و لال مسجد شکیل غازی نے بتایا کہ اب تیسری بار جھنڈے لگانے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے کہ ’پہلے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور پاکستان میں اسلامی نظام متعارف کرایا جائے۔‘

ایس ایچ او آبپارہ کلیم رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صبح اطلاع ملنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر سمیت ہم سب یہاں پہنچے ہیں۔ بظاہر کوئی چھوٹا سا معاملہ لگتا ہے لیکن بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی جامعہ حفصہ کی عمارت پر اسلامی امارات کا پرچم لہرایا گیا تھا۔

کیا دوبارہ ایسا کرنے کی ایک وجہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شکیل غازی نے کہا کہ ’ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کوئی مطالبہ نہیں کیا۔‘

’یہ پرچم جس پر کلمہ لکھا ہے، ہم اس کو تسلیم کرنے اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔‘

اس سے پہلے جب جامعہ حفصہ پر طالبان کے جھنڈے لگائے گئے تھے تو اس وقت ترجمان نے بتایا تھا کہ ’یہ جھنڈے کسی تقریب کے لیے لگائے گئے‘ اور اسلام آباد کی انتظامیہ سے بات کرنے کے بعد یہ بات رفع دفع ہوگئی تھی۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے گرد پولیس کی نفری کافی عرصے سے تعینات ہے۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1439156774439845889?s=19

متعلقہ تھانے کے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ذرا فاصلے پر معمول کی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی ’ہمیں ون فائیو کے ذریعے اہل محلہ کی شکایت آتی ہے اور کبھی پاس موجود ایک اور مدرسے کی جانب سے شکایت کی جاتی ہے۔‘

پولیس کے مطابق اس وقت بھاری نفری جامعہ حفصہ کے باہر موجود ہے اور اندر افسران مسجد کی انتظامیہ سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

ایس ایچ او کلیم رضا نے کہا کہ ’کوشش یہی ہے کہ معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو جائیں۔‘

لال مسجد آپریشن

واضح رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ2007 میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے بقول خواتین بھی شامل تھیں تاہم ضلعی انتظامیہ اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔

مولانا عبدالعزیر اس آپریشن میں خواتین کا برقعہ اوڑھ کر فرار ہو گئے تھے جبکہ ان کی والدہ اور بھائی اس آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز نے دو مختلف مقدمات سے ضمانت ملنے کے بعد سنہ 2016 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت لال مسجد آپریشن کے تمام کرداروں کو معاف کرنے سے متعلق بیان دیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا کے نمنائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ سنہ 2007 میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن کرنے والے سابق فوجی صدر پرویز مشرف سمیت دیگر تمام کرداروں کو معاف کرنے کو تیار ہیں۔

جن دو مقدمات میں ان کی عبوری ضمانت منظور کی گئی ان میں سول سوسائٹی کے کارکن کو دھمکیاں دینے کے علاوہ مذہبی منافرت اور حکومت کے خلاف شرانگیز تقاریر کرنے کے مقدمات شامل تھے۔

تھانہ آبپارہ کے انچارج نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں مقدمات میں مولانا عبدالعزیز کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

پولیس افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان مقدمات میں اگر اُنھیں گرفتار کیا جاتا تو اس سے وفاقی دارالحکومت میں امن عامہ کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں