کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں عید گاہ مسجد کے قریب میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 8 افراد کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
طالبان حکام نے کابل کی عید گاہ مسجد کے قریب دھماکے کی تصدیق کی ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’آج عید گاہ مسجد کے قریب دھماکہ ہوا جس میں متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔‘ تاہم انھوں نے اس دھماکے میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا۔
نن ماسپښین د کابل ښار عیدګاه جامع مسجد دروازې ته نژدې سیمه کې د ملکي خلکو په یوه تجمع کې بمي چاودنه وشوه، چې له امله یې متأسفانه یو شمیر ملکي هیوادوالو ته تلفات واوښتل.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) October 3, 2021
طالبان کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان قاری سعید خوستی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہماری ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں کم از کم دو افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔‘
جبکہ طالبان ذرائع نے بی بی سی پشتو سروس کو بتایا کے دھماکے میں کم از کم 8 افراد ہلاک جبکہ 20 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ طالبان ذرائع نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
افغان صحافی بلال سروری کے مطابق دھماکے میں 13 افراد ہلاک اور 36 زخمی ہو گئے ہیں۔
#AFG At least 12 people killed and at least 32 people wounded. Explosion took place during prayer services for mother of deputy Taliban minister of information and culture @Zabehulah_M33 , a Taliban official and eye witnesses in Kabul’s EID Gah mosque says.
— BILAL SARWARY (@bsarwary) October 3, 2021
دھماکے کے بعد مسجد کے ارد گرد تمام علاقے کو طالبان نے بند کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ سنیچر کو طالبان کے ترجمان اور وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ تین اکتوبر بروز اتوار کی دوپہر کابل کی عید گاہ مسجد میں ان کی والدہ کی وفات پر ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ جس میں انھوں نے اپنے تمام دوستوں اور عزیزوں کو آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
دارالحکومت کابل میں عید گاہ مسجد کے مرکزی دروازے پر بم دھماکے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عید گاہ مسجد میں طالبان کے ترجمان اور عبوری نائب وزیر برائے اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال کے بعد تعزیتی اجتماع منقعد کیا گیا تھا۔ ان کی والدہ کا انتقال چند روز قبل ہوا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے دھماکے کی جگہ سے قریب موجود ایک مقامی دکاندار عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’ میں نے عید گاہ مسجد کے قریب دھماکے اور اس کے بعد فائرنگ کی آواز سنی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دھماکے سے قبل طالبان نے سڑک کو بلاک کر دیا تھا تاکہ وہ عید گاہ مسجد میں ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے ایصال ثواب کے لیے دعائیہ تقریب کروا سکیں۔‘
واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد دارالحکومت میں یہ دوسرا بڑا دھماکہ ہے۔ قبل ازیں 26 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے پر اس وقت خودکش حملہ کیا گیا تھا جب غیر ملکی افواج کے انخلا کی تکمیل اور عام شہریوں کو افغانستان سے منتقل کرنے کا آپریشن جاری تھا۔
اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ خراسان (داعش) نے قبول کی تھی۔
داعش کی اس طرح کی کارروائیوں کے سبب یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ان دونوں شدت پسند گروپوں کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں داعش کے جنگجو مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ یہ گروپ طالبان کو دشمن دھڑا سمجھتا ہے اور ان کے خلاف متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ان میں دو ہفتے قبل صوبائی دارالحکومتجلال آباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکے بھی شامل ہیں جن کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔