پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کورونا سے انتقال کر گئے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کے جوہری پروگرام کے بانی سمجھے جانے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد میں وفات پا گئے ہیں۔

ان کی عمر 85 برس تھی اور وہ خاصے عرصے سے علیل تھے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان 26 اگست کو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد حالت اچانک بگڑ گئی تھی اور انھیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم کچھ روز بعد ان کی طبیعت سنبھلنے لگی تھی اور انھیں واپس گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔

11 ستمبر کو میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو میں انھوں نے بتایا تھا کہ وہ صحت یاب ہو چکے ہیں تاہم انھیں اتوار کو دوبارہ ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔

عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے تھے اور برصغیر کی تقسیم کے بعد 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تھی۔

انھوں نے اعلیٰ تعلیم مختلف یورپی ممالک سے حاصل کی تھی۔ یورپ میں 15 برس قیام کے دوران انھوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیون سے تعلیم حاصل کی۔

1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور 31 مئی 1976 سے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ‘ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز’ رکھ دیا تھا۔

یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہےـ

ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں خود لکھا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا ـ

مئی 1998 میں جب پاکستان نے انڈیا کے ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب جوہری تجربہ کیا تو بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـ

ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ

چودہ اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ اس سے قبل 1989 میں انھیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر خان کو پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا تھا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز کی فروخت کے الزامات تسلیم کیے تھے جس کے بعد سنہ 2004 میں انھیں اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔

2008 میں بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وقت آنے پر وہ یہ انکشاف کر دیں گے کہ انھوں نے جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا اعتراف کیوں کیا تھا۔

انھوں نے اپنے اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک آدمی کے اعتراف سے پورے پاکستان کا فائدہ ہو رہا تھا۔

جب ڈاکٹر قدیر خان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں ان پر جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ‘الزامات’ کیوں لگائے گئے تو ڈاکٹر قدیر کا جواب تھا: ‘ایک آدمی پر ڈال دیں تو ملک بچ جاتا ہے۔ بات ملک پر سے ہٹ جاتی ہے۔’

نظربندی کے بارے میں بات کرتے ہوئِے انھوں نے کہا تھا کہ ‘بات کرنے اور آزادی میں بہت فرق ہے۔ آزادی کے معانی ہیں کہ میں گھر سے باہر جاسکوں، لوگوں سے ملوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اور یہ (بات کرنے کی آزادی) کوئی بڑی آزادی نہیں۔ کیا ہم کوئی سرکاری راز کھول رہے ہیں کہ ہمیں باہر نہیں جانے دیا جا رہے۔ ہمیں تو دعا سلام ہی کرنا ہے۔’

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔

عبدالقدیر خان کی وفات پر وزیر دفاع پرویز خٹک کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ ان کی خدمات کو یاد رکھے گا اور پوری قوم ان کی جانب سے دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے ان کی مقروض ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں