ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان

پیرس (ڈیلی اردو/بی بی سی) منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے عالمی ادارے فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکوس پلییئر نے تین روزہ اجلاس کے بعد ورچوئل کانفرنس میں کہا کہ ’پاکستان کو بدستور نگرانی میں رکھا جائے گا۔‘

ایف اے ٹی ایف نے اس سے پہلے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کو اس لسٹ سے نکلنے کے لیے تین نکات پر توجہ دینے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان کو سنہ 2018 میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔

صدر ڈاکٹر مارکوس پلییئر نے بتایا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے دو ایکشن پلانز کے کل 34 نکات میں سے 30 پر عمل درآمد کر لیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے جون میں جاری کردہ پلان کا مرکز منی لانڈرنگ تھی، جس میں سے صدر مارکوس پلییئر کے مطابق پاکستان نے سات میں سے چار نکات پر عمل درآمد کر لیا ہے یا بڑی حد تک عمل درآمد کر لیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے سنہ 2018 کا ایکشن پلان جو کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق تھا، اس بارے میں بات کرتے ہوئے مارکوس پلییئر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 پر بہت حد تک عمل درآمد کر لیا ہے۔

پاکستان کو بلیک لسٹ کیے جانے کے امکان پر ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے دو ایکشن پلان کے کل 34 میں سے 30 نکات پر عمل درآمد کر لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس سے پاکستانی حکومت کا عزم واضح ہے، اس لیے اس بارے میں کوئی بحث نہیں ہو رہی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جائے اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ باقی چار نکات پر بھی عمل درآمد کرے۔‘

اجلاس کے دیگر فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے مارکوس پلیئر نے بتایا کہ بوٹسوانا اور موریشس کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اردن، مالی اور ترکی کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

حافظ سعید کو لاہور کی ایک عدالت نے دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے کے دو الگ الگ الزامات میں سے ہر الزام میں ساڑھے پانچ برس کی سزا سنائی تھی

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2019 میں ترکی کے بارے میں جائزہ لیا گیا تھا جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے سنگین مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ترکی نے چند نکات پر بہتری دکھائی ہے لیکن اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے متعلق معاملات کو مؤثر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان گرے لسٹ میں کیسے آیا؟

منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو 40 سفارشات مرتب کی گئی ہیں ان کے نفاذ کو انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ نامی ایک ذیلی تنظیم دیکھتی ہے۔

نومبر 2017 میں انٹرنیشنل کارپوریشن ریوویو گروپ کا اجلاس ارجنٹینا میں ہوا جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الدعوۃ جیسی تنظیموں کو دی جانے والی مبینہ حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔

اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی۔

پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امریکہ اور دیگر تین مملک سے پاکستان کا نام واپس لینے کی درخواست کی لیکن سب سفارتی کوششیں رائیگاں گئیں اور جون 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان سنہ 2013 سے سنہ 2016 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے۔

گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی کی ہیں۔

اسی سلسلے میں اپریل 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ سے منسلک تنظیموں اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں۔

جولائی 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی جبکہ گذشتہ سال نومبر میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں ساڑھے 10 سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔

رواں برس جنوری میں لاہور ہی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات پوری کرنے اور ٹیرر فاننسنگ کی روک تھام کے لیے 15 معاملات پر قانون سازی بھی کر چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں