یروشلم میں فلسطینیوں کیلئے امریکی سفارتی مشن کی بحالی کا منصوبہ، اسرائیل کی مخالفت

واشنگٹن+یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) فلسطینیوں نے اتوار کو یروشلم میں امریکی قونصل خانے کے دوبارہ کھولنے کے وعدے کو مسترد کرنے پر اسرائیل پر تنقید کی ہے۔ یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے امریکی سفارتی مشن کو بحال کرنے کے اقدام سے فلسطینیوں کو مثبت پیغام ملے گا۔

ہفتہ کو اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینٹ نے کہا تھا کہ یروشلم میں امریکہ کے کسی دوسرے سفارتی مشن کے کھولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں یروشلم کے قونصل خانے نے کام بند کر دیا تھا جو کئی برسوں سے فلسطینیوں کے لیے دراصل امریکی سفاری مشن کا کام سر انجام دیتا تھا۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے وعدہ کیا تھا کہ اس کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ البتہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس سے اس کا یروشلم پر خود مختاری کا دعویٰ چیلنج ہوتا ہے۔

اس قونصل خانے کے دوبارہ کھلنے سے امریکہ اور فلسطینیوں کے درمیان وہ تعلقات دوبارہ بحال ہو جائیں گے جو ٹرمپ کے دور میں شدید خراب ہو گئے تھے۔

فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اسرائیل نے ان فلسطینی علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے جو فلسطین کی مستقبل کی ریاست کا حصہ ہیں۔”

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”امریکی قونصل خانہ کھلنا عشروں سے جاری اسرائیلی قبضے کے خلاف بین الاقوامی برادری کے وعدوں کا ایک حصہ ہے۔”

ایک نیوز کانفرنس میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نفتالی بینٹ نے یروشلم کے بارے میں اسرائیلی مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ”یروشلم میں ایک اور امریکی قونصل خانہ کھولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہ یروشلم صرف ایک ملک کا دارالحکومت ہے اور وہ ملک اسرائیل ہے۔”

اسرائیل کے وزیرِ خارجہ يائر لیپڈ نے تجویز کیا تھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کے زیر انتظام مرکز رملہ میں اپنا قونصل خانہ کھول لے مگر فلسطینیوں نے اس تجویز کو اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ اس سے یروشلم پر ان کے دعوے کی نفی ہوتی ہے۔

یروشلم میں امریکی قونصل خانے کا کھلنا، بینیٹ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، کیوں کہ صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں امریکہ پھر اپنی روایتی پالیسی کو اپنا رہا ہے۔

سابق صدر ٹرمپ نے قونصل خانے کا رتبہ کم کر کے اسے امریکی سفیر کے ماتحت کر دیا تھا اور امریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ اس فیصلے نے فلسطینیوں کو خاصا ناراض کر دیا تھا اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ان کے تعلقات متاثر ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں