کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان سیز فائر

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) حکومتِ پاکستان کی جانب سے شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور مکمل جنگ بندی کے اعلانات کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کی تصدیق کے بعد کہا گیا ہے کہ فریقین ایک ماہ کے لیے فائر بندی پر رضامند ہو گئے ہیں۔

ادھر اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ پارلیمان میں کسی اتفاقِ رائے کے بغیر خود اپنے طور پر تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے۔

اجلاس کے بعد مسلم لیگ نون کے ایک سینیئر رہنما نے بی بی سی کی فرحت جاوید کو بتایا تھا کہ اجلاس کے دوران ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی دونوں ہی کے معاملے پر اپوزیشن نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور عوام دونوں کو نشانہ بناتی رہی ہے اور اس کے شدت پسندوں کے حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ بھی شامل تھا۔

پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں 147 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات اور جنگ بندی کے بارے میں اعلان پیر کی شام وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کیا تھا۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ’ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان مکمل سیز فائر پر آمادہ ہو چکے ہیں تاہم مذاکرات کی پیشرفت کو سامنے رکھتے ہوئے سیز فائر میں توسیع ہوتی جائے گی۔‘

ماضی میں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کے ٹی آر ٹی نیوز کو ایک انٹرویو میں بھی بتایا تھا کہ حکومت پاکستان ٹی ٹی پی کے کچھ علیحدہ دھڑوں سے بات چیت کر رہی ہے۔

فواد چوہدری کے اس بیان پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے اور شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ ’یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا انکار نہیں کر سکتی، لہٰذا تحریک طالبان پاکستان ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہے جس سے ملک بھر میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان موجودہ مذاکراتی عمل میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے اور فریقین نے مذاکراتی کمیٹیوں کے قیام پر اتفاق کیا ہے جو آئندہ لائحہ عمل اور فریقین کے مطالبات پر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گی۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریقین نے نو نومبر سے نو دسمبر تک فائر بندی پر بھی اتفاق کیا ہے جسے قائم رکھنا فریقین کی ذمہ داری ہو گی اور اس مدت میں فریقین کی رضامندی سے مزید توسیع بھی کی جائے گی۔

اتفاقِ رائے کے بغیر مذاکرات پر اپوزیشن کا ردعمل

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تحریک لبیک پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی خبروں پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پہلے بھی اس پر تنقید کرتے رہے ہیں اور اب بھی کریں گے۔

’جہاں کسی کو آن بورڈ نہیں لیا گیا، کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوا تو کون ہوتا ہے صدرِ پاکستان یا وزیرِ خزانہ کہ وہ بھیک مانگتے ہوئے تحریکِ طالبان پاکستان سے بات کرے۔‘

انھوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی ’جس نے ہمارے فوجی سپاہیوں کو شہید کیا، ہماری قومی قیادت کو شہید کیا، ہمارے اے پی ایس کے بچوں کو شہید کیا، کہ یہ کون ہوتے ہیں کہ اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ کس سے انگیج کرنا ہے۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جو بھی پالیسی ہو اس کی پارلیمان منظوری دے، وہ اتفاقِ رائے سے بنے۔ وہ پالیسی بہتر پالیسی بھی ہو گی اور اس کی قانونی حیثیت بھی ہو گی۔‘

’حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان مکمل سیز فائر پر آمادہ ہو چکے ہیں‘

سوموار کے روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے یکم اکتوبر 2021 کو اپنے انٹرویو میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا تذکرہ کیا تھا، ان مذاکرات کی شروعات ہو چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت ہوں گے۔‘

فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ’کوئی بھی حکومت پاکستان کے آئین اور قانون سے باہر مذاکرات کر ہی نہیں سکتا، ان مذاکرات میں ریاست کی حاکمیت، ملکی سلامتی، متعلقہ علاقوں کے امن، معاشرتی اور اقتصادی استحکام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں ان علاقوں کے متاثرہ افراد کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان علاقوں کے افراد کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔

’یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے یہ علاقے ایک طویل عرصے کے بعد مکمل امن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات میں افغانستان کی اتھارٹیز (عبوری حکومت) نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

قومی سلامتی اجلاس میں کیا ہوا؟

قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہوا، جس میں افغانستان سے متعلق امور اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کمیٹی کے اراکین کو آگاہ کیا گیا۔

اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اراکین کو بریفنگ دی۔

بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید سے بات کرتے ہوئے اجلاس میں شریک مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ اجلاس کے دوران ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی دونوں ہی کے معاملے پر اپوزیشن نے کھل کر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ’ہم نے پوچھا کہ تحریک طالبان سے بات چیت کے اقدام کی کیا جسٹیفکیشن ہے؟‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ ’اجلاس کے دوران حکومت اور سکیورٹی اداروں سے کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا معاہدے سے قبل ان لوگوں کے جذبات سے متعلق ضرور سوچا جائے جو ان کے حملوں سے متاثر ہوئے۔‘

’ان متاثرین میں خود بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں جن کی والدہ بنیظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری پاکستانی طالبان نے قبول کی تو ان کے جذبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

اس سوال پر کہ حکومت کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کس سٹیج پر ہیں، ایک حکومتی وزیر نے بی بی سی کو اس بارے میں دی گئی بریفنگ سے متعلق کہا کہ ’طالبان سے مذاکرات کی تین شرطیں رکھی گئی ہیں، جن میں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، ہتھیار پھینکنا اور پاکستان کے شناختی کارڈ بنوانا یعنی اپنی شناخت ظاہر کرنا شامل ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا تمام طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ کیا ’ہارڈ کور دہشتگردوں‘ کے لیے بھی مفاہمت کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ ’تمام بارہ گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔‘

’ان کی تعداد دو ہزار سے پچیس سو کے قریب ہے۔ ان میں شامل وہ افراد جو کسی دباؤ یا معاشی بدحالی کے باعث ان کا حصہ بنے یا ان کے حل طلب تخفظات ہیں تو ہم ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اگر 80 فیصد ہتھیار ڈال دیں گے تو باقی بیس فیصد کا حل بھی نکال لیں گے۔‘

بیشتر حکومتی وزرا نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق کیا گیا ہے۔ نام ظاہر کرنے کی شرط پر ایک اہم وفاقی وزیر نے کہا کہ بریفنگ کے دوران ’مکمل خاموشی‘ تھی اور اپوزیشن نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے ایک رہنما نے کہا کہ اجلاس میں اپوزیشن نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ تاثر دینا بند کیا جائے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا امریکہ کو افغانستان میں کارروائی کے لیے پاکستان کی حدود یا فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی، انھوں نے کہا کہ ’شہباز شریف سمیت اپوزیشن رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ پاکستان کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو ملک کو ایک نئی جنگ کی جانب لے جائے۔‘

دوسری جانب ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے کوئی بھی معاہدہ ہوا تو وہ سہ فریقی ہو گا یعنی افغان طالبان اس کا حصہ ہوں گے اور یہ امریکہ کو بھی واضح کر دیا گیا ہے۔‘

اپوزیشن نے قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے شرکت نہ کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

خیال رہے کہ بی بی سی کے پاس موجود سرکاری دستاویز کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس میں شرکت کے لیے اسی سے زائد افراد کو دعوت نامہ بھیجا جس میں بعض اراکینِ پارلیمان، اہم وفاقی وزرا، دفاع سے متعلق کمیٹیوں کے تمام ممبران اور معید یوسف سمیت وزیراعظم کے بعض مشیران کے نام شامل ہیں تاہم وزیراعظم کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں