تیگرائے جنگجو ایتھوپیائی خواتین کے ریپ میں ملوث ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

عدیس ابابا (ڈیلی اردو اے ایف پی/اے پی) ایتھوپیائی خواتین نے بتایا ہے کہ تیگرائے کے جنگجوؤں نے ان کے علاقے پر حملہ کرنے کے بعد مار پیٹ کے علاوہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان میں سے کچھ کا تو ان کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایتھوپیا کے شمالی علاقے امہارا کے ایک قصبے کی ان خواتین کے انٹرویو کیے ہیں، جنہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اس قصبے پر تیگرائے عسکریت پسندوں نے کچھ ہفتے قبل حملہ کیا تھا۔ ان خواتین نے بین الاقوامی تنظیم کو بتایا کہ حملہ آور جنگجوؤں نے قصبے پر دھاوا بولنے کے بعد گھروں کو لوٹا، خواتین و بچوں کو مارا پیٹا اور بعض خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔

ایمنسٹی انٹنیشنل کی اس تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس افریقی علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تیگرائے تنازعے کے بعد ہزاروں خواتین کی عزتوں کو تاراج کیا جا چکا ہے۔ ایسا کرنے والوں میں ایتھوپیا اور اریٹیریا کے فوجی بھی شامل ہیں، جن کا نشانہ تیگرائے خواتین تھیں۔

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی بپتا

ان متاثرہ خواتین نے انسانی حقوق کے اس ادارےکو بتایا کہ کس طرح مسلح افراد نے ان پر تشدد کیا اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ ایمنسٹی نے کم از کم سولہ ایسی خواتین کے انٹرویو کیے، جنہیں جنسی استحصال کا سامنا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ ان خواتین کو تیگرائے جنگجوؤں نے امہارا علاقے کے قصبے نفاس میوچا میں ریپ کیا تھا۔ امہارا کے قصبے میں تیگرائے پیپلز لبریشن فرنٹ کے مسلح کارکن رواں برس اگست میں داخل ہوئے تھے۔

سولہ میں سے چودہ خواتین نے ایمنسٹی کو بتایا کہ انہیں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ساتھ تیگرائے محاذِ آزادی کے مسلح کارکنوں نے گن پوائنٹ پر گینگ ریپ کیا۔

ان میں سے تین خواتین نے بتایا کہ جس وقت ان سے زیادتی کی جا رہی تھی تو اس وقت وہاں پر موجود ان کے بچے خوف سے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تیگرائے کے جنگجوؤں نے انہیں تھپڑوں کے علاوہ ٹھوکریں بھی ماریں اور وہ بندوق تان کر ایسا ظاہر کر رہے تھے کہ جیسے ابھی گولی چلا دیں گے۔ایک اٹھائس سال خاتون نے بتایا کہ چار مسلح افراد اسے ‘امہارا کی گدھی‘ کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور ریپ کے وقت اس کی بیٹی بھی موجود تھی۔

متاثرہ خواتین نے تصدیق کی کہ جنسی زیادتی کرنے والے مسلح افراد کا تعلق تیگرائے سے تھا کیونکہ ان کی گفتگو کا لہجہ اُسی علاقے کا لگ رہا تھا۔

ہسپتالوں کو برباد کر دیا

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ریسرچر فیسیہا ٹیکلے نے امہارا میں متاثرہ خواتین سے ملاقات کر کے ان کی روداد سنی اور قلم بند کر کے ایک مفصل رپورٹ کا حصہ بنایا۔

یہ امر اہم ہے کہ امہارا کا علاقہ ایتھوپیا میں کم آمدنی والا ہے۔ اس علاقے میں لوگ کم اجرت والی ملازمتیں کر کے اپنے خاندان کو پالتے ہیں۔ حقیقت میں ان لوگوں کا کم آمدنی پر ہی گزر بسر ہوتا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس علاقے کی زیادہ خواتین کو صحت کے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ اب حملوں اور جنسی زیادتی کے واقعات نے ان کی ذہنی حالت کو بھی شدید متاثر کر دیا ہے۔ یہ متاثرہ خواتین کئی ایام تک طبی امداد کی بھی منتظر رہیں کیونکہ تیگرائے جنگجوؤں نے سبھی ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچایا اور نصب شدہ طبی آلات اور مشینیں لُوٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنیس کالامارڈ نے تیگرائے کے مسلح کارکنوں کی اس کارروائی کو جنگی جرائم کی صف میں شمار کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مرتبین نے تو ان واقعات کو انسانیت کے خلاف جرائم بھی قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں