آذربائیجان اور آرمینیا میں جھڑپیں، 15 فوجی ہلاک

آرمینیا کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کے ساتھ سرحد پر ہونے والی لڑائی میں ان کے کئی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ بہت سے فوجیوں کو آذربائیجان حکام نے گرفتار کر لیا ہے۔

آرمینیا نے کہا کہ اس کے کچھ فوجی مارے گئے ہیں اور دو جنگی محاذ (مورچے) بھی ان کے قبضے سے چھینے جا چکے ہیں، دوسری طرف آذربائیجان نے کہا ہے کہ حالیہ جھڑپوں میں اُس کے دو فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

بعد ازاں منگل کو دونوں فریقوں نے مبینہ طور پر روسی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

واضح رہے کہ ناگورنو قرہباخ کے متنازع علاقے پر گشتہ سال دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں چھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ترکی کی حمایت یافتہ آذربائیجان کی فوج نے اس خطے کے بڑے حصے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جسے بین الاقوامی سطح پر آرمینیا کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

منگل کے روز آرمینیا نے روس سے کہا کہ وہ آذربائیجان کے خلاف اُن کی علاقائی خودمختاری کے دفاع میں مدد کرے۔ واضح رہے کہ سابق سویت یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے آرمینیا روس کا اہم سکیورٹی اتحادی ہے۔

بعد میں آرمینیائی اور روسی وزارت دفاع دونوں نے کہا کہ روسی ثالثی میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔

آذربائیجان نے اس معاملے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اس سے قبل آرمینیا نے آذربائیجان کے فوجیوں کو تازہ لڑائی چھیڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ آذربائیجان نے ان کے 12 فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔

آرمینیا نے فوری طور پر ہلاکتوں کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کی لیکن پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ ایڈورڈ آغاجانیان نے کہا کہ ممکنہ طور پر تازہ جھڑپ میں 15 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیا پر ’ریاستی سرحد پر کالبجر اور لاچین کے علاقوں میں آذربائیجان کے خلاف بڑے پیمانے پر اشتعال انگیزی‘ کا الزام لگایا ہے۔

آذربائیجان نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمینیا نے ’زیادہ فائدہ مند پوزیشن لینے‘ کے لیے ‘اچانک فوجی آپریشن شروع کر دیا‘ لیکن ان کا حملہ ناکام بنا دیا گيا۔

لیکن آرمینیا کی وزارت خارجہ کے مطابق، آذربائیجانی افواج نے مئی میں شروع ہونے والی پالیسی کے حصے کے طور پر مشرقی سرحد پر حملہ کیا جس کا مقصد دو آرمینیائی علاقوں، جنوب مشرق میں سیونک اور مشرق میں گیوغارکونک میں دراندازی کرنا تھا۔

تازہ جھڑپ کی وجہ کیا ہے؟

ان کی 44 روزہ جنگ کے ایک سال بعد یہ تازہ ترین کشیدگی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدے کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آذربائیجان ایک راہداری چاہتا ہے جو اس کے ایکسکلیو نخچیوان تک جائے اور بالآخر اس کی سرحد اس کے اتحادی ترکی سے جا ملے۔ اس نام نہاد زنگازور کوریڈور کو آرمینیائی سرزمین سے گزرنا ہو گا، لیکن آرمینیا کو آذربائیجان کے زیر کنٹرول اپنی سرزمین پر کسی سڑک کا ہونا قبول نہیں ہے۔

سیاسی طور پر یہ آذربائیجان کے رہنما الہام علییف کے لیے اہم ہے، جنھوں نے رواں سال کے شروع میں عہد کیا تھا کہ وہ آرمینیا کو راہداری کے حوالے سے چھوٹ دینے پر ’مجبور‘ کریں گے۔

کوئی بھی ملک امن معاہدے کی پاسداری کے لیے پُرعزم دکھائی نہیں دیتا اور دونوں اپنے فوجی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم فی الوقت کم از کم ان کے درمیان سفارتی رابطے نہیں ٹوٹے ہیں۔

منگل کو ہونے والے سرحدی جھڑپوں کے جواب میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ’مکمل جنگ بندی‘ پر بات چیت کریں۔

مسٹر مشیل نے کہا کہ انھوں نے صدر علیئیف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان کے ساتھ بات چیت میں ‘فوری طور پر کشیدگی کم کرنے’ پر زور دیا ہے۔

گذشتہ سال نومبر میں ہی روس کی ثالثی میں ایک امن معاہدہ طے پایا تھا اور تقریباً 2,000 روسی امن دستے ناگورنو قرہباخ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں گشت کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔

سوویت یونین کے دم توڑتے آخری سالوں میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان بنیادی طور پر نسلی-آرمینیائی ناگورنو-قرہباخ کے علاقے پر ایک خونی تنازعے شروع ہو گيا تھا۔

آرمینیا مسیحی اکثریت والا ملک ہے جبکہ آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جبکہ روس کا آرمینیا کے ساتھ اتحاد ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں